تحریر : عماد ظفر نبیل مسیح کی عمر 16 برس ہے. یہ عمر کا وہ حصہ ہوتا ہے جو انسان کی زندگی کا خوشگوار ترین سرمایہ ہوتا ہے. بچپن اور عمر کی دہلیز پر دستک دیتی نوجوانی اس عمر کو خوشگوار یادوں شرارتوں اور نادانیوں سے یادگار بنا دیتی ہے. لیکن نبیل مسیح 16 برس کی عمر میں جیل میں قید ہے اور اس پر الزام ہے کہ اس نے توہین مذہب کا ارتکاب کیا. فیس بک کے ایک پیج پر اس نے خانہ کعبہ کی ایک ایسی تصویر کو لایک کیا جس سے مسلمانوں کے جزبات مجروح ہوئے اور اسی کے ایک مسلمان دوست نے تھانے میں اس کے خلاف توہین مذہب کی ایف آئی آر کٹوا دی. نبیل مسیح کو گرفتار کر لیا گیا جبکہ اس کے گھر والے اپنی جان بچانے کیلئے گھربھار چھوڑ کر روپوش ہو گئے. فیس بک پر جس پیج پر نبیل مسیح نے خانہ کعبہ کی تصویر کو پسند کیا تھا اس پیج سے نہ تو نبیل مسیح کا کوئ تعلق تھا اور نہ ہی وہ تصویر اس نے اپ لوڈ کی. نبیل کے مطابق اس کے ایک دوست نے اس تصویر کو لاءیک کیا تھا۔
خیر نبیل مسیح کے کیس کا چالان پولیس نے ابھی تک عدالت میں پیش نہیں کیا اور ویسے بھی عدالت میں یہ شواہد ناکافی ہیں لیکن نبیل مسیح کی درخواست ضمانت کی سنوائی اس لیئے نہ ہو سکی کہ پولیس چالان نہیں تیار کر سکی تھی. اور کوئ امر مانع نہیں کہ پولیس ٹارچر سے تنگ آ کر وہ بچہ کچھ بھی قبول کر لے. ویسے بھی اگر پاکستان میں توہین مذہب کے الزامات کے دائرے میں گرفتار افراد کی تاریخ دیکھی جائے تو باآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نبیل مسیح چاہے اب جیل میں رہے یا رہا کر دیا جائے دونوں صورتوں میں اس کا انجام طے ہو چکا ہے. یا تو اسے زندگی بھر سلاخوں کے پیچھے رہ کر صرف سانس لینے کا بیالوجیکل عمل پورا کرنا ہو گا یا پھر اگر سول سوسائٹی کے دباؤ پر اگر سلاخوں سے رہائی نصیب بھی ہوئ تو باہر کوئی فرزند اسلام اسے کسی بھی وقت قتل کر کے مذہب کی توہین کا بدلہ لے لے گا۔
دونوں ہی صورتوں میں کسی اخبار میں ایک خبر کوئ چھوٹا موٹا کالم یا پھر کسی ٹی وی پر ایک چھوٹا سا ٹکر چلے گا اور ایک 16 برس کا بچہ زندگی جینے کے بجائے زندہ درگور ہو جائے گا. نبیل مسیح چک 66 بھائی پھیرو ضلع قصور کا رہائشی اس توہین مزہب کے قانون کا شکار نہ تو پہلا بچہ ہے اور نہ آخری. اور افسوس یہ ہے کہ ہم تمام افراد ایسے کسی بھی واقعے کو اہمیت دینے کو تیار نظر ہی نہیں آتے. اکثر توہین کے الزامات مسیحی برادری یا احمدی برادری کے لوگوں پر لگائے جاتے ہیں اور زیادہ تر کیسز میں مشتعل ہجوم خود ہی توہین کے الزامات کے شکار افراد کو مار ڈالتا ہے۔
Kot Radha Kishan Incident
وزیر آباد کے پاس جلائے گئے مسیحی جوڑے کی مثال سب کے سامنے ہے جن پر ایک منشی نے محض اس لیئے توہین کا جھوٹا الزام لگایا تھا کہ انہوں نے اس کا قرضہ واپس کرنا تھا اور مشتعل ہجوم نے اس جوڑے کو صفائی کا موقع دئیے بغیر اینٹوں کے بھٹے میں زندہ جلا ڈالا تھا.جب اسـں واقعے کے اصل محرکات سامنے آئے تو آپ کے اور میرے جیسے اکثر افراد نے کہا کہ یہ حیوانیت ہے دین میں اس کی کوئی اجازت نہیں ہے.مجھے یقین ہے کہ نبیل مسیح کے ساتھ بھی جب کچھ ایسا ہو جائے گا تو ہم تب بھی یہ فقرے بول کر اگلے مسیحی یا کسی اور اقلیتی فرقے کے فرد کے مرنے کا انتظار کریں گے. نبیل مسیح اور اس کے گھر والے تو پھر بھی خوش قسمت ہیں کہ ابھی تک توہین مذہب کے الزام کے باوجود زندہ ہیں وگرنہ یہاں تو سات دن کی نوزائیدہ بچی تک کو اس الزام میں ماں کے ساتھ ہی مار دیا جاتا ہے۔
نبیل مسیح کی رہائی کیلئے بلاول بھٹو زرداری نے بھی ٹویٹ کیا شازیہ مری نے اسمبلی کے فلور پر اس بات کو اٹھایا اور اقلیتوں کے وفاقی وزیر کامران مائیکل نے بھی اس کیس کا نوٹس لیا ہے اس کیس کی شنوائی 8 اکتوبر کو ہو گی اور اگر اتنے بڑے لوگ اس کیس کو فالو اپ کر رہے ہیں تو نبیل مسیح کو شاید ضمانت بھی مل جائے لیکن کیا یہ تمام بڑے لوگ نبیل مسیح اور اس کے خاندان کو یہ گارنٹی دے سکتے ہیں کہ ان پر کسی بھی شدت پسند فرد کی جانب سے حملہ نہیں کیا جائے گا کوئی مشتعل فرد یا گروہ انہیں قتل کرنے کی کوشش نہیں کرے گا؟ شاید اس کا جواب نفی میں ہے.دوسری جانب توہین مذہب کا الزام لگانے والا فرد اس وقت تک علاقے کا معزز ترین اور قابل رشک آدمی بن چکا ہو گا .اور مذہبی چورن والے اب تک اس کو یہ باور کروا چکے ہوں گے کہ ایک غریب مسیحی خاندان کو اس طرح سے جان کے لالوں میں ڈال کر اس نے مذہب کی عظیم خدمت کی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ہم لوگ اس موضوع پر بحث مباحث کرنے کو تیار ہی نظر نہیں آتے کہ آخر کو اقلیتوں کو کیسے توہین کے قانون کے غلط استعمال کی زد میں آنے سے بچایا جا سکتا ہے. ہماری عقیدت اور مذہب کا احترام اپنی جگہ لیکن کیا اس سوال کا جواب بطور معاشرہ ہمیں ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں کہ آخر کیونکر توہین مزہب کے زیادہ تر الزامات یا مقدمات مسیحیوں ہندووں احمدیوں یا دیگر اقلیتوں یا پھر غریب افراد کے خلاف ہی قائم ہوتے ہیں۔
Salman Taseer
کیا عقل اس بات کا جواب نہیں مانگتی کہ اپنے اپنے فرقے کی کمزوری اور توہین مزہب کے سنگین نتائج کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی بھی ذی شعور انسان چاہے وہ کسی بھی اقلیت سے تعلق رکھتا ہو ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا. آخر کچھ تو گڑبڑ ہے کہ اقلیتیں اور غریب اشخاص ہی اس قانون کے زمرے میں آتے ہیں یا پھر سول سوسائٹی یا ایسے سیاستدان جو بے حد بولڈ ہوتے ہیں اور اپنی رائے کا اظہار ہر فورم پر کرتے ہیں.سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی کا انجام اس ضمن میں شاید ایک اشارہ بھی ہے کہ دین پر اجارہ داری کرنے والے زیادہ تر مولوی اور مذہبی چورن فروش توہین کے قانون کو اپنے اپنے مفاد کی خاطر ایک ایسی تلوار کی مانند اقلیتوں اور مخالفین کے سر پر رکھنا چاہتے ہیں جس سے سہ جب چاہیں مخالف کو قتل بھی کر دیں اور پھر ہیرو بھی کہلائیں۔
عقیدتوں کا بیوپار کرنے والے یہ گھناونے افراد دراصل اس معاشرے میں طبقاتی تقسیم اور مزہبی شدت پسندی کی سب سے بڑی وجہ ہیں. شاید نبیل مسیح کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ اس کے نام کے ساتھ مسیح آتا ہے اور مسیح ہونا اس ملک میں توہین کے الزام سے آپ کو ساری زندگی بری نہیں کروا سکتا. ہم توہین مزہب کے قانون پر تو شاہد کبھی بھی بحث نہیں کریں گے لیکن خاموشی سے اقلیتوں کو اپنے سامنے زندہ درگور ہوتے دیکھ کر آنکھیں چرا کر اندھی عقیدتوں کی چادر تلے جیتے رہیں گے. نبیل مسیح اور اس جیسے ہزاروں افراد جو توہین مذہب کے مقدمات میں جیلوں میں بنا کسی ٹھوس شواہد کے سڑ رہے ہیں ان کی بے بس آنکھیں یہ سوال البتہ ہم سے کرتی رہیں گی کہ کیا وہ بھی اتنے ہی پاکستانی نہیں ہیں جتنا کہ ہم اور کیا قانون ان کے لیئے بھی اتنا ہی موثر اور مضبوط نہیں ہونا چاھیے جتنا کہ ہمارے لیئے ہے۔
مذاہب توہین کا شکار نہیں ہوا کرتے بلکہ انسان توہین اور تزلیل کا شکار ایک دوسرے کے ہاتھوں ہوتے ہیں.مذاہب تو آفاقی ہیں اور آفاقی معاملات اور قرائن کی توہین کرنا بشر کے بس کی بات نہیں.مذاہب یا عقیدوں کو کوئی خطرہ بھی نہیں ہوا کرتا خطرہ ان چورن فروشوں کو ہوتا ہے جو مذہب اور عقیدے کی آڑ میں اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کا گھناؤنا کھیل کھیلتے ہیں. عقیدتوں کے اندھے پن میں نبیل جیسے ہم وطنوں کی زندگی کو جہنم مت بنائیے۔