تحریر : مروا ملک ہوائوں کے خرام کو شمع کے ساتھ ہمیشہ سے ہی الجھن رہی ہے۔ مگر حیاتِ بنی نوع آدم میں کچھ لمحات ایسے بھی آتے ہیں جب زندگی خود میں وہ رنگِ تغیر سمو لیتی ہے، جس کے نتیجے میں وہ تنوع عمل پذیر ہوتا ہے جو سس جہات میں بہ صورت دھڑکن سرائیت کر جاتا ہے۔ایسے ہی کچھ لمحات کبھی تو نارِ نمرود کے بھڑکتے شعلوں میں نظر آتے ہیں، کبھی فرعون کے مدِمقابل، کبھی مصر کے بازاروں میں، کبھی شب تار میں تو کبھی سوئے دار میں۔ مگر ان میں ایک لمحہ ایس بھی ہے جس کو تمام لمحات پہ فوقیت حاصل ہے اور وجہ فوقیت ایک نصِ قطعی یوں بیان کرتی ہے۔
وَما اَرسَلنک اِلّا رَحمت اللعٰلمین
پوری کی پوری انسانیت ایک لفظ عالمین کی زد میں آتی ہے ۔ اس بات سے قطع نظر کہ بات حسب و نسب کی ہو، فہم و ادراک کی ہو، حتیٰ کہ عالمین کی بنیادی تعریف میں حیوانات ، نباتات، جمادات، معدنیات الغرض کائنات کا ہر طول و عرض آ جاتا ہے۔اب جو ہستی راس منصبِ معمور ہے ان کا نامِ اسمِ گرامی محمد الرسول اللہ ۖ ہے۔ الفاظ بہت ہیں ، معانی بہت ہیں مگر عالمین کیلئے رحمت کو موضوع اس لیے چنا کیونکہ محبت کا رحمت سے گہرا تعلق ہے۔اس لیے میں محبت کو برنگِ رحمت بیان کرنا زیادہ مناسب سمجھتی ہوں۔ الفاظ و معانی کے اس الجھے ہوئے گرداب میں قلوب و اذہان یہی کہنا مناسب سمجھتے ہیں۔
شفقت و محبت کے عظیم پیکر کی محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک صحابی نے دورانِ سفر ایک فاختہ کے بچے اٹھا لیے۔ فاختہ کو بھی معلوم تھا کہ آہ و زاری سننے والی ذات بعد از خالقِ ارض و سما وات حمدِ کبریا ۖ ہیں۔اس لیے وہ آپ کے پاس فریاد سنانے آئی اور فریاد رس ۖ نے صحابی کو حکم فرمایا کہ اس کے بچوں کو آزاد کر دو۔ عرش العلیٰ پر رب نے سات سو بار پوچھا کیا چاہتے ہیں آپۖ؟ جواب دیا: امت کی مغفرت۔ ایسے مہربان اور شفیق رسول کی محبت کا انداز ہ اسی جملہ سے ہو جاتا ہے۔جب وہ ہر شے پر مقدم امت کی محبت کو رکھتے ہیں۔ایسے مہربان کی عظمت یہ تقاضا کرتی ہے کہ ان سے محبت کی جائے۔اس لیے حدیث میں آتا ہے:
”لا یومن احدکم حتٰی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین” ترجمہ: تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا ہے جب تک میں اسے اس کے والدین، اولاد اور تمام لوگوںسے بڑھ کر محبوب نہ ہو جائوں ۔ یہی وجہ ہے کہ صدیقِ اکبر ، عمر فاروق ، عثمان ذولنورین اور حیدرِ کرار ہمہ تن جان نچھاور کرتے تھے۔
صوم و صلوٰة ہیں کہ سجود و رکوع ہیں ہر چند شرح میں یہ اہم الوقوع ہیں جب نبی نہ ہو تو یہ سب لا نفوع ہیں
ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ محبتِ رسول ۖ ہی اصل حیات ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محبت کیسے کی جائے؟؟ محبت کے کچھ تقاضے ہوا کرتے ہیں، جیسا کہ ان کی تعلیمات پر عمل کرنا، جن چیزوں سے آپ ۖ نے منع فرمایا ان سے رک جانا اور جس کام کیلئے آپ ۖ کو مبعوث فرمایا گیا اس کو آگے بڑھانا۔
اس آیت کریمہ کے تحت حضرت عباس فرماتے ہیں کہ جب حضرت موسیٰ کو کوہ طور پر نوازا گیا تو انھوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا:
”الٰہی ! تو نے مجھے ایسی نعمت سے سرفراز فرمایا ہے ہے کہ مجھ سے پہلے کسی کو ایسا مقام عطا نہیں ہوا” اے موسیٰ ! ہم نے تیرے دل کو متواضع پایا تو اس مقام سے نواز دیا۔
آیت کریمہ ہے ترجمہ : ” جو آپ کو دیا گیا اس پر شکر کرو اور زندگی کے آخری لمحات تک توحید اور محمد ۖ کی محبت پر ہو۔” حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: ” یا اللہ! محمد کی محبت تیری توحید کے ساتھ ضروری ہے؟” تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ: ترجمہ: ” اگر محمدۖ اور اس کی امت نہ ہوتی تو میں جنت، دوزخ، سورج، چاند، رات، دن ، فرشتے ، انبیاء کسی کوپیدا نہ کرتا اور اے موسیٰ تجھے بھی نہ پیدا کرتا۔”
اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل و کرم سے ہمیں اپنا پیارا محبوب عطا فرمایا ہے۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے پناہ نعمتوں سے نوازا اور پھر یہ کمال کہ اس نے کسی نعمت پر یہ نہیں فرمایا کہ اے انسان! میں نے تجھ پر بڑا احسان کیا ہے۔یعنی نعمتیں تو دی ہیں مگر احسان نہیں جتلایا ۔ مگر جب کائنات میں اپنا پیارا حبیب ۖ بھیجا تو ارشاد فرمایا:
ترجمہ: ” اللہ نے مومنین پر بڑا احسان کیا ہے کہ ان میں بڑی عظمت والا رسول بھیجا ہے۔”معلوم ہوا کہ یہ وہ نعمتِ عظمیٰ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے احسان جتلایا ہے۔احسان اس نعمت پر ہوتا ہے جس پر دینے والے کو خود بھی ناز ہو۔