تحریر : شاز ملک، فرانس اک گراں مایہ بے قدر خاک کے پتلے میں اگر زندگی کی روح نہ پھونکی جاتی تو وہ مالک کوزہ گر کے چاک پر خاک کے ڈھیر کی صورت مدتوں پڑا التفات کی اک نگاہ کو ترستا رہتا اپنے ہونے کے احساس کو پانے کے لئے مچلتا رہتا اپنی تکمیل کے لئے تڑپتا رہتااور اس عالم عرض و سما میں رب تعالیٰ کی بیش قدر نعمت کا عطا ہونا انسان ہونا اسکے مقدر میں نہ لکھا ہوتا۔
انسان جو رب تعالیٰ کی احسن تخلیق افضل مخلوق اشرف المخلوقات کا اعزاز پا کر بھی متلون بیچین رہا اورپھر اس کی یہی متلون مزاجی اسے جنت سے کر کار زار جہنم دنیا میں کھنچ لآیی مگر عجیب بات کے اس حیات کارزار میں انسان کو ہی میسر نہیں ہے انسان ہونا زندگی فنا کے طاق پر رکھا ہوا وہ ٹمٹماتا ہوا ننھا سا چراغ ہے جو اجل کی تند و تیز ہوا سے کب بجھ جائے کچھ پتا نہیں فنا کے سفر پر رواں دواں انسان ایک پڑاؤ پر آ کر رکتے ہیں جسے زندگی کا نام دیا جاتا ہے لمحاتی زندگی کو جینے کا دعویٰ کرنے والے انسان یہ جانتے ہی نہیں کے اس مختصر سے پڑاؤ میں انکے اعمال کے تناسب کو حساب کے زاوئیے میں پرکھا جاےگا اور چند روزہ زندگی میں لی گیی اربوں کھربوں سانسوں کا اپنے ایک ایک لمحے کا حساب دیں گے۔
اپنے خالق و مالک کے سامنے دست بستہ کھڑے ہونے کا تصور ہی دل و جان پر لرزہ طاری کر دیتا ہے کیا اپنے اندر گناہوں کی بد بو عیاریوں مکاریوں کی گندگی کو وجود میں سمیٹے انسان رب کی پاک بارگاہ میں جا کر کھڑا ہونے کا تصور کر سکتا ھے اگر پل بھر کو انسان یہ سوچ لے تو شاید یہ تصور اسکی روح کو لرزہ دے اور وو اس تصور میں ہی کتنے گنشوں سے محفوظ ہو جائے مگر ہم یہ سوچتے ہی کب ہیں سمجھتے ہی کب ہیں۔
دنیاوی عیش و عشرت میں مگن پتا ہی نہیں چلتا کے ہمارے پڑاؤ پر رکنے کا سفر ختم ہو جاتا ہے اور پھر جسم فانی مٹی کا رزق بن جاےگا اور روح اس پڑاؤ پر رکنے کے بعد اگلے سفر پر روانہ ہو جاے گی جسکی انتہا کی خبر ماسوا الله رب العزت کے سوا کسی کو نہیں دعا ہے کے رب تعالیٰ ہمیں اپنے رحم و کرم کی عطا سے معاف فرمایں اور ہمارے جسمانی اور روحانی سفر کا انجام بخیر فرمایں۔ آمین