اسرار کا اصرار

Holy Quran

Holy Quran

تحریر : شاہ بانو میر
پارہ 16 قال الم سورة طہ مکیة 19 رکوع 16 اور جو میرے ذکر( درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا٬ اُس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی٬ اور قیامت کے روز اُسے ہم اندھا اٹھائیں گے ٬ وہ کہے گا پروردگار دنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا ٬ یہاں مجھے اندھا کیوں اٹھایا ؟اللہ تعالیٰ فرمائے گا ٬٬ ہاں ٬٬ اسی طرح تو ہماری آیات کو جب وہ تیرے پاس آئی تھیں تُو نے بھُلا دیا تھا٬اسی طرح آج تو بھُلایا جا رہا ہے٬اللہ اکبر !! ہم اپنے ہی اندازے پر دین کو چلائے ہوئے ہیں ـ ہم کہتے ہیں کہ فلاں اپنے اعضاء کسی کو دے گیا تو قیامت کے دن وہ اندھا اٹھے گا ؟ اصل اندھا تو یہ ہے کہ جس نے اپنی زندگی کی مصروفیت میں سے وقت نہ نکالا اور یونہی دنیا جو مکر و فریب کا گڑھ ہے ـ اسکی رونقوں میں خود کو یوں ڈبو کر گم ہو جائے کہ اپنے خالق اپنے مالک کی عطا کردہ کتاب کو کھولے ہی نہ ـاُس میں خود اس انسان کا ذکر ہے 17 پارہ دوسرے رکوع میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ اس میں تمہارا ذکر ہے ـآج ہم اتنی نعمتوں کو استعمال کر رہے ہیں بغیر شعور کے بغیر سوچے ہوئے کہ آخر کس خدمت کے عوض یہ ہمیں عطا ہوئیں ـ وہ رب جلیل جسے نہ ہمارے سجدوں کی ضرورت ہے اور نہ عبادات کی اس لئے کہ چوبیسون گھنٹے اس کے مطیع و فرماں بردار فرشتے اس کی حمد وثنا میں مشغول رہتے ہیں ـانہیں اس کے سوا اور کوئی کام نہیں وہ اس عبادت کی کثرت سے انسانوں کی طرح تکان محسوس نہیں کرتے۔

قرآن پاک سورت البقرہ میں فرشتے اپنے رب سے کہتے ہیں کہ “” ہم تو آپکی تسبیح بیان کرتے ہیں ساتھ پاکیزگی کے70 ہزار فرشتے وہ ہیں جو چوبیسوں گھنٹے خانہ کعبہ کے اوپر موجود بیت المعمور کا طواف کرتے ہیں ـاور روز اول سے آج تک ایک گروہ کی دوسری بار باری نہیں آئی ـ سبحان اللہ اس ہمیشہ سے رہنے والے عظیم نظام کے خالق چاند سورج جس کے مطیع ہوں اُس رب کو اس فانی انسان کی عبادت کی کیا ضرورت ہے؟ جس کی پیدائش کھنکھاتی گارے کی گلی سڑی بدبو دار مٹی سے ہوئی ہو؟ معیار جس کا معیار اعلیٰ لباس کیلئے ریشم کا کیڑا ہو؟ دوسری جانب شہد کی مکھی ایک ادنیٰ سا کیڑا اس کیلئے غذا لعاب سے پیدا کرے؟ جس کی ضروریات حوائج کا نظام بگڑے تو جینا اجیرن ہو جائے ـ جس کی غذا جو انواع و قسم کے پھلوں سبزیوں اور دیگر زرعی اجناس پر مشتمل ہے۔

اگر وہ حکمت والا اگر وہ بزرگی والا زمین میں گُم بیج کیلئے آسمان سے پانی کا اہتمام نہ کرے اور زمین میں چھپے بیج پر سورج کی حدت کو عام نہ کرے تو کیسے یہ زندہ رہ سکتا تھا؟ کون ہے عظیم کون ہے اعلیٰ کون ہے اعظم کون ہے بزرگ و برتر؟ وہ اللہ وہی اللہ جس نے بنائے آسمان اور زمین 6 دنوں میں جسے ان کی تشکیل تکمیل میں کسی مددگار کی ضرورت نہیں محسوس ہوئی ـ وہ جو کبھی اونگھتا نہیں وہ جو رب العرش العظیم ہے وہ جس کی تسبیح سمندر میں موجود مخلوق کرتی ہے سمندر میں موجود آبی مخلوق کی صورت ہزاروں اقسام کے جاندار جنہیں خاص اسلامی طریقہ کے تحت حلال کرنا بھی ضروری نہیں بس پکڑو اور استعمال کرو ـ سمندروں کا وسیع و عریض جہاں جس کے لئے الکھف میں حکم ہے کہ اے نبیﷺ کہو کہ اگر سمندر میرے ربّ کی باتیں لکھنےکے لیے روشنائی بن جائے تو وہ ختم ہو جائے مگر میرے ربّ کی باتیں ختم نہ ہوں۔ بلکہ اگرا تنی ہی روشنائی ہم اور لے آئیں تو وہ بھی کفایت نہ کرے سبحان اللہ کچھ میٹر چوڑا چھت ڈالنا ہوتا ہے تو کئی کئی پِِلر اس کا وزن اٹھانے کیلئے تیار کئے جاتے ہیں اور اس میں ٹنوں کے حساب سے عمارتی مواد ڈالا جاتا ہے کہ لمبے عرصے تک یہ وزن سہار سکے۔

Hazrat Ali Words

Hazrat Ali Words

اے غافل انسان !! دیکھ اپنے سر پے موجود اس لامتناہی آسمان کو جس کی کوئی حد ہی نہیں ہے ـ کیا تجھے کوئی پِلر کوئی ستون اسے تھامے ہوئے دکھائی دیتا ہے؟ آخر کون ہے اتنی بڑی چھت بغیر سہارے کے قائم کرنے والا ؟ قدرت کا مشاہدہ کرنا ہو تو آبادی سے دور نکلیں اطراف میں موجود ہریالی سبزہ شادابی تازی ہوا پرسکون ماحول آسمان پے اڑتے پیارے پیارے پرندے کل کی فکر سے بے نیاز آج رزق تلاش کر رہے ہیں کل کی کل دیکھتے ہیں ـ ان سے ہم کوئی سبق نہیں سیکھتے؟ قدرت کے کاموں میں زمین ہی کیا آسمان میں بھی انسان کوئی کجی تلاش نہیں کر سکتا اتنا فول پروف نظام بنایا گیا ہےـ یورپ میں چند گھنٹوں کے فاصلے پر کئی ممالک موجود ہیں جب آپ ایک ملک سے دوسرے ملک کیلئے سفر کرتے ہیں تو اس وقت قدرت کی صناعی کی داد دیے بغیر بد ذوق سے بد ذوق بندہ بھی نہیں رہ سکتا ـ جانتے ہیں کیوں؟ وہ دیکھتا ہے کہ اونچے اونچے دعوےٰ کرنے والے انسان کی محنت اس کے وسائل اس کے تخلیات محض کچھ کلو میٹرز تک ہیں ـ اس کے بعد اس کا خزانہ خالی ہو جاتا ہے ـ اور سحر انگیز عمارتیں نظر آنا ختم ہو جاتی ہیں۔

مگر سفر خواہ دس بیس کلو میٹر کا ہو یا سیکڑوں یا ہزاروں کلو میٹر کا قدرت کا نظام کہیں بھی اپنے اندر خلا نہیں رکھتا متحیر کُن نظام آپ کو ہر جانب مربوط جڑا ہوا قدرتی نظام دکھائے گا ـ قدرت کے نظارے اس کے مناظر اس کی تخلیقات ماشاءاللہ ایک جیسے تسلسل کے ساتھ حد نگاہ تک جاری و ساری رہتی ہیں ـ درختوں کا شمار ناممکن ہے کُجا وہ ایک ایک گرے ہوئے پتے کا حساب جانتا ہے؟ اللہ اکبر ہر چیز کی خواہش کرنے والا انسان غربت کی پستی سے ابھر کر امارت کی آخری حدوں کو چھو لیتا ہے کیا وہ اس قابل تھا؟ اس جیسے ہاتھ دماغ آنکھ سب دوسرے انسانوں کے پاس بھی ہیں مگر اصل میں وہ آزمایا گیا اللہ کے ہاں نعمتوں کی عطا سے اور اس کو اس نے اپنی محنت سے تعبیر کر لیا ـ انسان اسی فخر میں مبتلا رہتا ہے کہ میں نجانے کتنا ذہین ہوں اصل میں تو وہ قدرت والا اس کو دوسروں میں جسے منفرد کرنا چاہتا ہے اس کی غیب سے مدد کرتا ہے۔

دوسری جانب حکم ہے کہ ایسے امراء کو دیکھ کر اپنی آنکھیں نہ پھیلاؤ ـ کیوں؟ اگر قرآن پاک جیس انعام تمہارے پاس ہے تو سبحان اللہ سوچئے دنیا کی دولت انعامات اختیارات تو سخت آزمائش ہیں اصل انعام تو آپ کی صحت ہے آپ کی آنکھوں کا نور ہے کانوں کی سماعت ہے ہاتھوں کی محنت ہے پاؤں کی حرکت ہے دل اور دماغ کا بہترین کام کرنا ہے سوچئے ان اعضاء میں سے ایک بھی درست حالت میں نہ ہو تو ہم کیا کر سکتے تھے؟ شکر بجا لائیے اگر اللہ پاک کے انعامات مل رہے ہیں ـ شکر کی صورت کیا ہونی چاہیے؟ باتیں پڑہیں اپنے رب کی اس قرآن پاک میں ترجمہ کی صورت اُس استادوں کے سب سے بڑے استاد سے گفتگو کیجیے اعتراف کیجیۓ اپنی زندگی کی کاہلی کی سستی کی تساہل کا ناممکنات کو آپ نے زندگی کی کامیابی کیلئے ممکن کر دکھایا۔

ALLAH

ALLAH

مگر اس کتاب ہدایہ کے فرامین کو جاننے کی کبھی کوشش نہ کی قرآن پاک جس کیلئے کہا گیا کہ پارہ 16 قال الم سورة طہ مکیة 19 رکوع 15 اے نبیﷺ اُسی طرح ہم نے اِسے قرآن عربی بنا کر نازل کیا ہے٬ اور اس میں طرح طرح کی تنبیہات کی ہیں٬ ٬ شائد کہ یہ لوگ کج روی سے بچیں یا اِن میں کچھ ہوش کے آثار اس کی بدولت پیدا ہوں٬ دنیا میں اندھے گونگے بہروں کیلئے ہمارا معیار یہ ہے کہ اندھا وہ جو دنیا کے حسن کو نہ دیکھ سکا گونگا وہ جو اس دنیا کی خوبصورتی کو بیان نہ کر سکا ـ بہرہ وہ جو بہتے جھرنوں مترنم آبشاروں حمد و ثنا کرتے پرندوں کو سن نہ سکا یہی ہے ناں ہمارا عام معیار ؟در حقیقت اندھا تو وہ ہے جو اپنے رب کے قرآن کو نہ پڑھ سکا ـ اپنی زندگی میں کھول کر اس پرغورو فکر نہ کر سکا اس کی قیمتی آیات پر ٬ عربی میں پڑہتا رہا مگر ساری عمر وہ چاشنی نہ پا سکا وہ حلاوت سے محروم رہا جو اس کا ترجمہ پڑھ کر حاصل ہوتی ـ وہ بس پڑہتا رہا حصول ثواب کی خاطر حالانکہ یہ تو ہدایت کی خاطر آئی تھی۔

گونگا وہ جو بول نہ سکے جبکہ اصل گونگا وہ ہے جو دنیا جہاں کے قلابے تو مارے کامیاب بھی ہو جائے مگر اپنے رب کیلئے اسکی زباں کو توفیق ہی نہ ہو کہ اس کی کتاب الہدایہ کی تلاوت بھی زندگی میں سمجھ کے کر سکے ـ اس کی زباں قرآن پاک کو پڑہنے سے محروم ہو ـ بہرہ ہمارے لئے وہ ہے جو ہماری بات کو سن نہیں سکتا ـنہیں بہرہ تو وہ ہے جس کے پاس سب کی سننے کا وقت ہو وہ بے حساب مصروف ہو کامیاب ہو مگر دنیا کی مصروفیت قرآن پاک کی تلاوت اس کے کانوں تک نہ پہنچنے دے وہ محروم رہے اپنی مصروفیات میں شکر تو کائنات کا ذرہ زرہ اس رب کریم کا کرتا ہے پھر وہ انسان جس کی تخلیق ہی عبادت کیلیے کی گئی وہی محروم ہوگیا؟ کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی تعریف کرتا ہے۔

حتیٰ کہ دروازے کی چر چراہٹ کو اہل دانش کہتے ہیں کہ اللہ چاہتا تو لکڑی کا بے جان دروازہ یہ آواز نہ نکالتا مگر اصل میں تو وہ بھی اپنے انداز میں ہمیں متوجہ کرتا ہے کہ میں بھی بول رہا ہوں ـسبحان اللہ کائنات میں موجود جاندار چرند پرند انسان سب کے سب اور ان کے ساتھ سمندروں کے عظیم سلسلے ان میں موجود مخلوقات چاند ستارے کہکشائیں پہاڑ صحرا نخلستان ان جہانوں میں موجود قدرت کے پراسرار اسرار اصرار کرتے دکھائی دیتے ہیں ـکہ وہی ہے معبود الحق جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہی ہے اول و آخر اسرار کا اصرار محسوس کیجیۓ۔

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر