تحریر: محمد اعظم عظیم اعظم ہم نے اپنی زندگی میں اکثر مواقعوں پر بہت سے معاملات زندگی میں اپنے اور دوسروں کے مفادات کے لئے ایسے بہت سے مک مکا کئے ہوں گے جو چند افراد تک محدود رہے ہوں گے اور ہم نے ایسا کرنے یا کرانے کے لئے کبھی بلواسطہ تو کبھی بلاواسطہ اپنا کوئی نہ کوئی کردار بھی ضرور ادا کیا ہو گا۔
مگرآج چلو..چلیں …!!کہ ہم اپنے شہراپنے مُلک اور اپنی دنیا کے امن و سُکون اور سلامتی کے خاطر بھی آپس میں کوئی ایسامُک مُکاکرہی ڈالیں ہم جس سے اپنے شہراپنے مُلک اور اپنی دنیا کے لوگوں کو بھی فائدہ پہنچائیں اور ہمیں اپنی کوشش پر بھی ناز ہوکہ ہم نے بھی اپنے شہراپنے مُلک اور اپنی دنیاکے لوگوں کے خاطر امن و سکون اور بھائی چارگی کی دائمی فضاکے قیام کے لئے اپنی ذات سے ایک ایسامُک مُکاتی عمل کرڈالاہے کہ جس سے ہمارے شہرہمارے مُلک اور ہماری دُنیا میں امن و سکون اور عفوودرگزراور صبروبرداشت اور محبت کی ایسی چاشنی درآئے ہے اَب جو تاقیامت قائم رہے گی۔
اگرچہ…!!آج راقم الحرف سمیت دنیاکاہرفرداپنی روز مرہ کی زندگی میں کچھ ایسامصروف ہے کہ اِس نے اپنی اِس مصروف زندگی کو اپنی ذات اور اپنی فیملی کے مفادات تک ہی محدودکررکھاہے اور ایساکرنے میں وہ ہر جائزاور ناجائز طریقے اپنانے پر تلابیٹھاہے جِسے معاشرہ اور قانو ن کسی بھی طور درست قرارنہیں دیتاہے مگر اِس مادہ پرست دنیامیں کوئی بھی یہ سوچنے اور سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہے کہ اِس کی ذات اور فیملی تک محدودرہنے والے فوائد اِس وقت تک کارآمداور مفیدثابت نہیںہوسکتے جب کہ اُس کے شہراُس کے مُلک اور اُس کی دنیامیں امن اور بھائی چارگی کا ماحول پیدانہ ہو جائے۔
آج ہم خوش قسمتی سے دنیاکے جس بارہویں انٹرنیشنل شہرکے باسی ہیںوہ شہرِ کراچی کہلاتاہے اور اِسے میرے دیس پاکستان میں معاشی حب کا درجہ حاصل ہے اور یہی دنیاکو وہ شہر ہے جس پر دنیاکی رال ٹپکتی ہے اور دنیاکی نظریں اِس کے خوبصورت ترین محلِ وقوع پر ٹکی ہوئیں ہیں آج جن کا اِس شہر پر کوئی بس نہیں چلتاہے اور جنہیں اِس شہرکے محلِ وقوعِ کی افادیت سے متعلق جانکاری ہے ،وہ اِس شہرکو اپنے چیلوں اوراپنی خفیہ ایجنسیوں کے لوگوں سے کام لے کر’ ’شہرِ دہشت گرداں“ بنانے میں تلے بیٹھے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اِس شہر میں کسی بھی صورت امن و سکون اور بھائی چارگی کی فضاقائم نہ ہونے پائے اور یہ شہرجو پاکستان جیسے دنیاکے ایک غریب ترین ایٹمی طاقت رکھنے والے مُلک کا معاشی حب ہے اگراِس میں امن سرچڑھ گیاتوپھر یہ شہرمسائل میںگھیرے مُلک پاکستان کی قسمت بدلنے میں اہم کرداراداکرسکتاہے یوںدنیاکی کچھ نادیدہ قوتیں یہ چاہتی ہیںکہ اِس شہر کو کبھی بھی امن و سکون کا گہوارہ نہ بننے دیاجائے کیوں کہ وہ یہ نقطہ اچھی طرح سے سمجھتی ہیں کہ جس روز بھی اِس شہرِ کراچی میں امن و سکون قائم ہوگیااور اِس کے بندکارخانوں اور صنعتوں کی چمنیوں سے دھواں نکلناشروع ہوگیاتو سمجھ لو کہ اِس دن سے شہرِ کراچی میں امن قائم ہوگیا اور پاکستان کے مسائل حل ہوگئے اور پاکستان ترقی و خوشحالی کی اُس راہ پر گامزن ہوگیاجس پر چل کر پاکستان نہ صرف خطے بلکہ ساری دنیامیں وہ مقام حاصل کرلے گاجس کا شائد خود پاکستانیوں نے بھی تصورنہیں کیا ہوگا۔
Pakistan
توپھرآو¿…!! شہرِ کراچی کے محب ِ وطن باسیوںہم اپنے شہرکو دنیاکی نادیدہ طاقتوں کے چنگل سے نکالنے کے لئے ہم اپناایک قدم آگئے بڑھائیں اور ہم آپس کے ذاتی و سیاسی، اخلاقی و معاشرتی ،لسانی و تعصبی اور مذہبی و فروعی ،زبانی و رنگنی،تہذیبی و ثقافتی،فرقہ واریت اوردوسرے اختلافات کو بالائے طاق رکھ دیں اور آپس میں ایک ایسادائمی ” مُک مُکا“ کرلیںہم آئندہ جس کی بنیادپر آپس میں نہیں لڑیںگے اورہم ایسا کوئی حرف،جملہ اور ا یسی کوئی بات اپنی زبان سے نہیں نکالیںگے جس کی وجہ سے ہم دست وگریباں ہوں اور ہمارے اختلافات گلیوں اورمحلوں سے نکل کر مُلک کی شاہراہوں تک پہنچیں اور دنیاہماری اِسی کمزروی کافائدہ اُٹھاکر ہماری سا لمیت اور خودمختاری کوخطرے میں ڈال دے۔
جبکہ آج کسی کو یہ اختیارنہیں کہ کوئی ہمارے شہرہمارے مُلک اور ہماری دنیا کے امن اور بھائی چارگی کے جذبوں کو تباہ وبرباد کرنے کے لئے اپنے اختیارات اور حدود کا ناجائز استعمال کرے اور کسی کے خلاف ایسی زبان و جملے استعمال کرے جس سے نفرتیں تو پیداہوں مگر برداشت و عفوودرگزراور امن و بھائی چارگی کی قائم فضا مکدرہو جائے۔ پچھلے کچھ دِنوں سے ہمارے شہرہمارے مُلک اور ہماری دنیامیں طاقتوروں کی طرف سے کمزروں کو نیچادکھانے اوراِنہیں اپنے زیرتسلُط رکھنے کا گیم جاری ہے اگرمسلسل طاقتوروں اور اختیارات رکھنے والوں کی جانب سے یہ بساط بچھائی جاتی رہی تو کوئی عجب نہیں کہ ہمارے شہرہمارے مُلک اور ہماری دنیامیں کبھی بھی امن و سکون قائم نہیںہوسکے گااور ہم ایک دوسرے کے چہروں پر طمانچے اورٹھونسے مارتے مارتے خود خاک ہوجائیں گے مگر ہم اپنے اِس عمل سے کوئی ایسامثبت و تعمیری نتیجہ نہیں نکال سکیں گے جس پر ہمیں اور ہماری ذات کو تسکین ملتی۔
ہاں البتہ…!!آج اگر ہم اپنے حالاتِ اور واقعات کا جائزہ لیں اور اپنے اردگردکے ماحول اور لوگوں کی ذاتی و سماجی،سیاسی و مذہبی،اقتصادی و کاروباری سرگرمیوں پر نظررکھیںتو ہمیں خودیہ اندازہ ہوجائے گاکہ ہمارے شہرہمارے مُلک اور ہماری دنیامیں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جواپنے اختیارات کاناجائزاستعمال کرتے ہیںاور اپنے وجود کو دوسروں کے ہاتھوں گروہی رکھ کر وہ کچھ کررہے ہیں اور کروارہے جِسے کوئی بھی معاشرہ برداشت نہیں کرسکتاہے ہمیں ایسے ہی لوگوں اور افراداور ٹولوںاور گروہوں کا قلع قمع کرنے کے لئے ہی تو کوئی ایسامُک مُکاکرناہوگاجس سے ہم اپنے شہراپنے مُلک اور اپنی دنیاکو امن و سکون کا عظیم گہوارہ بناسکتے ہیں تو پھرآو مک مکا کریں…؟؟۔(ختم شد)