زندگی ایک سفر ہے اور انسان مسافر۔انسان ماں کے بطن سے اپنا سفر شروع کرتا ہے اور موت کی آغوش میں جانے تک، منزل کی جستجو میں گامزن رہتا ہے۔ کہا جاتا ہے سفر اچھے بھی ہوتے ہیں اور انتہائی افسردہ بھی۔حسین سفرکی یادیں ہمیشہ دل کے نہہ خانوں میں قائم و دائم رہتی ہیں اور غم دیدہ سفر زندگی کو دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے اور زندگی ایک دن کھوکھلے شجر کی مانند زمین بوس ہو کرفنا ہو جاتی ہے۔ بے شک جو انسان اس فانی دُنیا میں آیا ہے اسے واپس پلٹنا بھی ہے۔اس دوران بہت سے نقش اپنی آنکھوں کے پردوں کے پیچھے پنہاکر چکا ہوتا ہے.
مجھے اسلام آباد کی وادی میں چھپی نیشنل دیفنس یونیورسٹی جانا تھا۔ملتان سے براستہ لاہوراور لاہور سے موٹر وے سے اسلام آباد کا سفر کرنا تھا۔سفر کے دوران جو مشکلات پیش آئی بس مت پوچھیئے۔موٹر وے پر قیام و طعام پر اتنی مہنگائی، اُف توبہ۔پندرہ روپے میں ملنے والا جوس کا پیکٹ پچاس روپے میں مل رہا تھا۔بات کی تو الٹا چور کوتول کو ڈانٹنے والی بات ہوئی۔مہنگائی کا عروج دیکھ کر جنرل پرویز مشرف کا دور حکومت یاد آگیا۔امریت تھی جو بھی تھا مہنگائی کنٹرول ضرور تھی۔
ملتان کی حالت زار پردل خون کے آنسو روتا ہے۔توڑ پھوڑ کا شکار سڑکیں،بجلی کی لوڈشیدنگ،گیس کی بندش،سی این جی پمپوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ملتان شریف اولیائے اللہ کی دھرتی ہے۔مگر ہر نئی آنے والی حکومت نے اس کے ساتھ ناانصافی کی ہے۔اس کے تمام فنڈزلاہور کے نام جاتے ہیں۔کیا صوبہ پنجاب میں صرف لاہور ہی آتا ہے۔پنجاب کے باقی شہروں کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک آخر کیوں؟
جب ملتان سے لاہور کی سر زمین پر قدم رکھا تو عقل دنگ رہ گئی۔شاندار کشادہ سڑکیں، فلائی اورز، ہر چوک پھولوں سے سجا ہوا اور تو اورشیشے کی طرح چمکتی سڑکیں اپنا گرویدہ بنا رہی تھیں۔واقعی خادم پنجاب نے لاہور کو پیرس بنانے کا جو خواب دیکھا تھا ،پورا ہو نے کو ہے۔میٹرو بس کی شاندار کامیابی کے بعد اب میٹرو بلٹ ٹرین بھی لاہور میں چلے گی۔کیا خادم پنجاب کی گاڑی کبھی ملتان کا رُخ بھی کرے گی۔؟جہاں سورج کی گرمی میں غریب مزدور چوراہوں پر سارا سارادن روزی روٹی کی تلاش میں بیٹھے مسیحا کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔کسی کا چولہا ٹھنڈا پڑا ہے تو کسی نے اپنے بیٹے کی اسکول فیس ادا کرنی ہے۔کسی نے اپنی بیماری بیوی کی دوائی لینی ہے۔کوئی بوڑھا باپ اپنی بیٹی بیاہنے کے لیے اس کا جہیز بنانے کے جتن کر رہا ہے۔روز روزی روٹی کی تلاش میں جانے والے جب شام کو خالی ہاتھ لوٹٹے ہیںان کے چہروں پر ہزاروں سوال ہوتے ہیں۔یہ تو ملتان تھا ،آپ کا لاہور سے موٹروے اسلام آباد جانے کا اتفاق ہو تو ٹرانسپورٹ کا جائزہ ضرور بہ ضرور لینا۔
Pakistan
یہ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔من مرضی کے کرائے وصول کرتے ہیں۔کوئی بحث کرے تو گاڑی سے اتارپھنکتے ہیں۔گاڑیوں میں سکیورٹی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔کئی مسافر بیچارے لٹ جاتے ہیں۔اکثر گاڑیوں کو ڈاکو لوٹ لیتے ہیں۔پلاننگ کے تحت گاڑی ویران سنسان جگہ پر رکوائی جاتی ہیں۔اشارہ بعد میں ہوتا ہے اور ڈرائیور گاڑی پہلے روک لیتا ہے۔ڈاکو آزدانہ مسافروں سے مال او اسباب لیتے ہیں ۔کوئی ہوشیاری دیکھائے تو جان سے گئے۔ پاکستان کے روڈ بھی تو ایسے ہیں جیسے کھنڈرات سے گزر رہے ہوں۔کہیں گہرے گڑھے پڑے ہیں تو کہیں بجری،پتھر اڑ کر مسافروں کو لگ رہے ہیں۔اچھی بھلی گاڑی ایسے لگتی ہے جیسے (مرحوم کی یاد)میں سفر کر رہے ہوں۔سڑکیں بنانے والے ٹھیکے دار نقص میٹریل ڈال کر روڈ بنا دیتے ہیں جو تھوڑے ہی عرصے میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں اور عوام کے لئے پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔متعدد حادثات اانہی کی وجہ سے ہوتے ہیں ۔جان سے مسافر جاتے ہیں اور یہ لوگ ہمدردی کے چار بول بول کرخاموش ہوجاتے ہیں۔
رشوت خواری،منافع خواری نے میرے ملک کی جڑیں کاٹ لی ہیں۔ملک قرضسے کی لعنت میں ڈوبا جارہا ہے اور صاحب اقتدار لوگ اپنی تجوریاں بھرتے جا رہے ہیں۔بات ہو رہی تھی اسلام آباد کی ۔جب ہم پاکستان کے درالحکومت اسلام آباد پہنچے تو دل خون کے آنسو رونے لگا۔جس روڈ پر جائیں کام ہو رہا ہے۔عارضی تکلیف کے لئے معذرت خواہ ہیں کے سائن بورڈ لگے ہوتے تھے۔
پوری دُنیا کی نظریں درالحکومت پر ہوتی ہیں کم از کم اسے تو صاف ستھرا اور شاندار سڑکیں سے مزیںہونے چاہیے۔یونیورسٹی جاتے ہوئے ایک سائن بورڈ پر نظر پڑی تو حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔عبارت کچھ یوں تھی(اسلام آباد قبرستان)۔تب سے آج تک میں سوچ میں گم ہوں کہ کیا زندہ لوگ بھی مردوں میں شامل ہیں۔؟اہل دانش،اہل ادب بھی اس روڈ سے گزرتے ہوں گے۔ان کی نظریں اس سائن بورڈپر پڑے تو مجھے ضرور اس کا مفہوم بتائیے گا۔یہ جو گاڑیاںچل رہی ہیں۔جو لوگ سفر کر رہے ہیں یا جو لوگ یہاں رہتے ہیں سب مردوں کی حالت میں ہیں۔؟کیا صاحب قلم کی نظریں اس طرف نہیں جاتیں۔؟