تحریر : انجم صحرائی ایک واقعہ جو مجھے نہیں بھولتا وہ کچھ یوں ہے کہ اسی لاہور یا ترا کے دوران میں منصورہ بھی گیا شا ئد میں وہاں بھی کسی سے ملنے گیا تھا اس زما نے میں میاں محمد طفیل جما عت اسلا می پا کستان کے جزل سیکریٹری ہوا کرتے تھے اور مو لا نا مو دو دی امیر جما عت اسلامی تھے ، مو لا نا محترم اپنی رہائش گاہ اچھرہ میں نماز عصر کے بعد ایک نششت میں رفقاء اور کارکنوں سے ملا کرتے تھے مجھے انہی دنوں کئی بار اس نششت میں جانے اور مو لا نا محترم سے ملاقات کرنے اور ان کی گفتگو سننے کا بھی تفاق ہوا ۔خیر ذکر ہو رہا تھا منصورہ کا ۔ اس زما نہ میں منصو رہ نیا نیا بنا تھا میں منصورہ سے نکلا تو میرے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ میں کسی ویگن میں بیٹھ کر چوک یتیم خانہ آ جا تا ۔ جہاں میں نے ایک عزیز کے ہاں گذ شتہ چند ہفتوں سے ڈیرے ڈالے ہو ئے تھے میں پیدل ہی منزل کی جا نب چل پڑا ۔ چلتے چلتے میںپیچھے مڑ کر بھی دیکھ لیتا اور لا ہور کی طرف ہر جا نے والی پرا ئیویٹ گا ڑی کو اشارہ بھی دیتا اس امید پر کہ شا ئد کو ئی لفٹ مل جا ئے اور منزل آ سان ہو جا ئے ۔ کا فی دیر کے بعد میرے اشارے پر ایک کھڑ کھڑاتی ہو ئی فو کسی کار میرے پاس آکر رکی اس میں سیاہ تھری پیس پہنے ایک مو ٹے سے خا صے صحت مند صاحب بیٹھے ہو ئے تھے بڑے دبنگ لہجے میں پو چھا کیوں روکا ہے ؟ لو ٹنا چا ہتے ہو ؟ میں گھبرا گیا اور بو لا نہیں جی میں تو لفٹ لینا چا ہتا ہوں یتیم خانہ چوک تک۔
جواب ملا آ جا ئو میں ان کیسا تھ برابر والی سیٹ پر بیٹھ گیا گا ڑی چلی تو صاحب نے ڈیش بورڈ کے نیچے سے ایک چھو ٹی سی بو تل نکا لی اپنے منہ کو لگا ئی اور گٹا گٹ پی گئے ۔ میں انہیں عجیب نظروں سے دیکھ رہا ہے تھا میرے یوں دیکھنے پربو لے یہ کھا نسی کا شر بت ہے مجھے سا نس کی تکلیف ہے اور مجھے یہ پینا پڑتا ہے میں نے کہا صاحب یہ پوری بو تل ۔ کہنے لگے یار کون صبح دو پہر شام کی چنتا کرے میں تو ایک ہی بار پی لیتا ہوں ۔تم اپنی سنا ئو میں نے اپنی کتھا سنا ئی تو بو لے کام تو تمہیں ابھی مل سکتا ہے اب اس کام میں تم کتنے کامیاب ہو تے ہو یہ تمہاری محنت اور قسمت میں نے کہا جی ٹھیک ۔ وہ مجھے لے کر سمن آباد روڈ پر واقع ایک ڈاک خا نے کی گلی میں قر شی دوا خانہ کے ہیڈ آ فس لے گئے قر شی دواخا نہ کے حکیم اقبال قریشی ان کے بڑے جا ننے والوں میںسے تھے وہ مجھے لے کر ان کے آ فس میں چلے گئے وہاں جا کر بو لے اقبال صاحب یہ نو جوان رستے میں ملا بے روزگار ہے اسے کام کی تلاش ہے ۔ اقبال صاحب نے بغیر کچھ جواب دئیے بیل بجا ئی اور اندر آ نے والے بندے سے کہا کہ اسے سیلز برا نچ میںلے جا ئو تھوڑی دیر بعد جب میں دفتر سے نکلا تو قر شی دواخانہ کے پمفلٹ اور برو شرمیرے ہا تھوں میں تھے اور میں سیلز ریپ بن چکا تھا ۔ میں نے خا صی جدو جہد کی مارکیٹوں کی ایک ایک دکان پر آ رڈر لینے کے لئے حا ضری دی مگر تین چار دنوں بعد بھی میں کو ئی خا طر خواہ کا میا بی حا صل نہ کر سکا اور نہ ہی اسی سبب دو بارہ قر شی دواخانہ حا ضری کا جواز بنا اور نہ ہی مجھے دوبارہ وہ ایک گھونٹ میں کھا نسی کا سارا شر بت پینے والے صاحب سے ملنے کا اتفاق ہوا مگر وہ مجھے آج بھی یاد ہیں اور ان کے وہ انسان دوست رویے مجھے آج بھی حیران کرتے ہیں۔
میں نے جیسا پہلے کسی کالم میں لکھا ہے کہ میں زما نہ طا لب علمی میں ہی اسلامی جمیعت الطلباء سے منسلک ہو گیا تھا ۔ میں ان دنوں کوٹ سلطان ہا ئی سکول کا طا لب علم تھا جب پیپلز پا ر ٹی نے پہلا الیکشن لڑا ، پی پی پی کے مہر منظور حسین سمرا کے مقا بلے میں جمیت العلما ء پا کستان کے خواجہ محمد عبد اللہ عرف پیر با رو اور جما عت اسلا می کے مو لا نا افضل بدر قو می اسمبلی کے لئے امیدوا رتھے میں اپنے پو لنگ سٹیشن پر مو لا نا محمد افضل بدر کا پو لنگ ایجنٹ تھا یہ بڑے مزے کی بات تھی کہ میرا نہ تو اس وقت ووٹ بنا تھا اور نہ ہی میری عمر اٹھارہ سال تھی ۔ وو ٹ نہ ہو نے اور کم عمری کو جواز بنا کر پی پی پی کے دو ستوں نے میرے پو لنگ ایجنٹ بننے پر اعتراض کر دیا جس کی وجہ سے پو لنگ خا صی دیر رکی رہی آخر پرا ئیز نڈنگ آ فیسر نے محیثت پو لنگ ایجنٹ میری نا مزدگی کو منظور کیا تب جا کر پو لنگ کا آغاز ہوا۔
Polling
میٹرک کے امتحانات کے بعد جب میں نے تلاش روزگار مہم کا آ غاز کیا تب لا ہور یا ترا کے بعد میں نے کراچی جا نے کا فیصلہ کیا میں نے ایک سیا سی کارکن ہو نے کے با و جود ما سوا ئے ایک دفعہ کے کبھی بھی اپنے کسی کام کے لئے کسی رقعے یا پر چی کا سہارا نہیں لیا خدا کا یہ احسان ہے کہ اس نے مجھے کسی اور کے دروازے پہ جا نے کی ضرورت ہی پڑ نے نہیںدی ۔ میں نے اپنی زند گی کے لئے پہلا اور آ خری شفا ر شی رقعہ مو لا نا محمد افضل بدر سے جما عت اسلامی کراچی کے نام حا صل کیا ۔ مو لانا افضل بدر جما عت اسلا می مظفر گڑھ کے امیر بھی تھے یہ شا ئد 1973 کا زما نہ تھا جب میں عازم کرا چی ہوا وہ بھی اس حال میں کہ جب میں کرا چی کینٹ سٹیشن پر اترا تب میری جیب میں بارہ آ نے تھے ۔ ٹرین نماز فجر کے بعد پہنچی تھی مگر ابھی سورج نہیں نکلا تھا گر می کے دن تھے مگر کرا چی کی فضا ٹھنڈی تھی اور سرد ہوا ئیں سرد صبح کا احساس دلا رہی تھیں میں نے سٹیشن کی عمارت سے با ہر نکل کر سا منے والی مسجد کی راہ لی ۔مسجد اس وقت زیر تعمیر تھی نماز فجر کے بعد مسجد کی تعمیر کے لئے چندے اور عطیات اکٹھے کر نے کا اعلان کر نے والا اپنے کام کا آ غاز کر چکا تھا سا منے رکھے ما ئیک پر وہ اعلان کر رہا تھا کہ زیر تعمیر مسجد کو چندہ دیں جو مسجد کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالے گا اللہ اسے اس کے بد لے دنیا میں دس اور آ خرت میں ستر گنا اجر سے نوازیں گے میں نے یہ اعلان سن کر اپنی کل پو نجی جو میری جیب میں تھی یعنی بارہ آ نے ساری کے سا ری مسجد کے لئے لا ئوڈ سپیکر پر چندہ اکٹھے کر نے والے کے سا منے رکھی ہو ئی صندو قچی میں ڈال دی۔
یہ سب میں نے ایک سو چے سمجھے منصو بے کے تحت کیا میں کو ئی حاتم طا ئی یا بڑا دیا لو نہیں ہوں ۔ دینے د لا نے میں خا صا کنجوس اور بخیل واقع ہوا ہوں اور اللہ کے نام پر دینے سے تو جان نکلتی ہے مگر مجھے اتنا پتہ ہے کہ اللہ کو جو قرض دیا جا ئے وہ کبھی ڈو بتا نہیں اور وہ قر ضہ عین اس وقت جب سارے دروازے بند ہو جا ئیں بندے کو دست غیب عطا کر دیتا ہے میں اپنی سا ری پو نجی اس تجارت میں لگا کر مسجد میں داخل ہوا ، وضو کیا قضا نماز فجر ادا کی اور اللہ کریم سے بڑی عاجزی اور انکساری کے ساتھ اپنا مدعا بیان کیا یہ بات نہیں کہ اللہ کریم کو ہما ری نیتوں اور مسا ئل کا پتہ نہیں ہو تا وہ ذات تو سب سے زیادہ علیم و خبیر ہے سب جا نتا ہے اور سب سے زیا دہ با خبر ہے مگر بندہ جب اپنے خالق سے ما نگتا ہے عاجزی اور انکساری کے سا تھ پھر خا لق تو خالق ہے نا وہ کسی کو بھی کبھی خالی ہا تھ نہیں لو ٹا تا ۔ بس ما نگنے کا سلیقہ ہو رحیم وکریم مالک اور خالق کے ہو تے ہو ئے بندہ کبھی تہی دامن نہیں ہو تا ۔ ستم یہ ہے کہ بس ہمیں ما نگنا ہی نہیں آتا علا مہ اقبال نے شا ئد جواب شکوہ کے ان اشعار میں ہماری اسی کم ما ئیگی کا تذ کرہ کیا ہے۔ ہم تو ما ئل بہ کرم ہیں کو ئی سا ئل ہی نہیں راہ دکھلا ئیں کسے رہرو منزل ہی نہیں تر بیت عام تو ہے ، جو ہر قابل ہی نہیں جس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ گل ہی نہیں کو ئی قا بل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
میں بھی ریگزار تھل سے ایک نئی دنیا کی تلاش میں کرا چی آیا تھا میری خوش بختی کہ اللہ کریم کا گھر میرے اس سفر کا پہلا پڑائو بنا اور اس سے بھی اچھی بات کہ مجھے اس مسجد کے تو سط اللہ کریم کو قر ض حسنہ دینے کا مو قع مل گیا ۔ یہ سب اچھے اشارے تھے اس نئے سفر کے ۔ نماز کے بعد میں نے اللہ کریم سے گذارش کی کہ میں پہلی دفعہ کرا چی آ یا ہوں گو اس شہر میں میرے کچھ عزیز بھی ہیں مگر میں اللہ کریم بس تیرا مہمان ہوں میں جب کھا نا کھا ئوں گا جب تو مجھے کھلا ئے گا ، جب مجھے کام ملے گا نہ میں کسی کا مہمان بنوں گا اور نہ ہی کسی کے گھر سے کھا نا کھا ئوں گا ۔ بس میرے لئے کام کا بندو بست کر دے کام کو ئی بھی ہو اور جیسا بھی ہو مجھے کام ملنا چا ہیئے تا کہ میں آج کھا نا کھا سکوں تجھے پتہ ہے میں نے کل دو پہر سے کچھ نہیں کھا یا ۔ میں نے نماز سے فارغ ہو کر مسجد میں مو جود ایک دوسرے شخص سے پو چھا کہ آرام با غ مسجد یہاں سے کتنی دور ہے ؟ با قی آ ئندہ۔