میں ہزار بیماریوں کو اپنے اوپر برداشت کر سکتا ہوں مگر کسی دوسرے کے ساتھ ناانصافی برداشت نہیں کر سکتا۔ یہ معقولہ ہے حکیم سقراط کا۔۔۔ یہ حکیم 469……. قبل مسیح میں پیدا ہوا۔ نہایت محنتی جفاکش اور صابر ہونے کے علاوہ نہایت سادہ اور غریبانہ زندگی بسر کرتا تھا۔ تحقیق حق اور علم و اخلاق کی وعظ گوئی میں اس کی تمام زندگی بسر ہوئی۔غور و فکر میں اس قدر مستغرق ہو جاتا کہ کسی مسلہء کو سوچنے کے لیئے گھنٹوں ایک ہی جگہ دنیا ما فیہا سے بے خبر کھڑا رہتا۔
اپنے معتقدوں اور شاگردوں سے کبھی نذرانہ، فیس یا کسی قسم کی امداد نہ لیتا۔ہر وقت وعظ گوئی میں مشغول رہتا اور انسانوں کی محبت کا ہمہ وقت متلاشی رہتا۔۔ ساٹھ سال کی عمر میں سینٹ کا ممبر منتخب ہوا۔ ایک معاملہ میں جو صریحاً نا انصافی پر مبنی تھا اس نے دوسرے ممبروں سے اختلاف رائے کیا اور کہا ” کہ میں ہزار بیماریوں کو اپنے اوپر برداشت کر سکتا ہوں مگر کسی کے ساتھ نا انصافی برداشت نہیں کر سکتا ” صاحبو! آج کتنے لوگ ہیں جو اپنے آپ کو بچانے کے لیئے انصاف کا خون کرتے ہیں اور اس پر نادم بھی نہیں ہوتے۔بات ہو رہی تھی حکیم سقراط کی ۔۔۔۔ ستر سال کی عمر میںاس حکیم پر بت پرستی کے خلاف وعظ گوئی اور حکومت وقت کے خلاف تقریریں کرنے کا الزام لگایا گیا ۔ اس زمانے میں حکام سلطنت ووٹوں کے زریعے منتخب ہوتے تھے۔
سقراط کہتا تھا یہ رسم نہایت ہی نامعقول ہے۔ اگر ملاح، معمار اور بڑھئی کی ضرورت ہو تو تو کوئی شخص ووٹ نہیں لیتا۔ بلکہ جو شخص ان کاموں کے لیئے مناسب ہوتا ہے اسے مقرر کیا جاتا ہے اگر انتخاب میں غلطی ہو جائے تو انفرادی حیثیت کی وجہ سے چنداں مفر نہیں ہوتی لیکن جہاں ہزارہا انسانوں کے حکام منتخب کرنے میں ووٹ لیئے جائیں وہاں بلا شبہ یہ سخت حماقت ہے۔
قارئین! ہمارے ملک میں جس طرح کے انتخابات ہوتے ہیں اس میں تو واقعی یہ حماقت کے سوا کچھ نہیں کہ ہم ان سے کسی احسن نتیجے کے برامد ہونے کی توقع رکھیں۔جہاں الیکشن کرائے نہیں خریدے جاتے ہیں (بلکہ پینتی پنچر لگائے جاتے ہیں ) افسوس کہ آج کوئی سقراط نہ ہوا ورنہ سپریم کورٹ کے سامنے بیٹھ کے زہر پی لیتاجس نے پوری قوم کا اعتبار لوٹ لیا۔
غرض یہ کہ حکومت کی طرف سے سماعت مقدمہ کی تاریخ مقرر ہو گئی لیکن سقراط بدستور اپنی تعلیم و تدریس اور وعظ گوئی میں مشغول رہا ایک آدمی نے کہا۔ سقراط تم عجیب آدمی ہو تم پر جو سخت ترین الزام حکومت کی طرف سے لگایا گیا ہے اگر وہ خدا نخواستہ ٹھیک ہو جائے تو تمہیں جان کے لالے پڑ جائیں گے لیکن تمہیں کوئی فکر ہی نہیں تمہیں جواب دہی کے لیئے تیاری کرنی چاہیئے۔
سقراط نے بے پرواہی سے کہا۔ میں اسی کو کافی تیاری سمجھتا ہوں کہ میں نے اپنی ساری زندگی کوئی گناہ اور فریب نہیں کیا۔اس وقت تک میری عمر نہایت اطمنان سے گذری ہے اور میں لگاتار اخلاقی ترقی کرتا رہا ہوں اور لوگوں کو بھی اخلاقی تعلیم دیتا رہا ہوں۔ تمام لوگ میری عزت کرتے ہیں اگر میری زندگی بچ بھی جائے تو بڑھاپا مجھے ستائے گا ۔میرے حواس کام نہیں کریں گے میری فراست میں کمی آ جائے گی ایسی حالت میں مجھے زندگی کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔اب اگر مجھے مجرم گردان کر مار ڈالا جائیگا تو لوگ ججوں کے فعل کو قابل نفرت خیال کریں گے اور میرے خلاف اتہام نہ لگائیں گے۔بلکہ ممکن ہے میری موت کی وجہ سے میری عزت پہلے سے بڑھ جائے گی۔”مقدمہ کی تاریخ مقرر پر جوسوالات عدالت نے کئیے ان کا نہایت متانت، دلیری اور استقلال سے جواب دیا۔اس کی آواز یا الفاظ سے ظاہر نہیں ہوتا تھا کہ وہ خوف ذدہ ہے یا اپنے آپ کو مجرم سمجھتا ہے۔
Punishment
آخر عدالت نے ووٹ لینے کے بعداس کی موت کا حکم صادر کیا۔ اس عہد حکومت میں گردن کاٹنے یا پھانسی کی بجائے زہر کا پیالہ دیا جاتا تھا اس وقت کے قانون کے مطابق ایسے جرائم کے لیے کچھ جرمانہ لے کر مجرم کو معاف کر دیا جاتا تھا۔سقراط کے دوستوں نے اسے کہا کہ وہ اس قانون سے فائدہ اٹھائے۔ہم جرمانہ کی بھاری سے بھاری رقم ادا کرنے کے لیے تیار ہیںاس وقت سقراط نے جو جواب دیا اسی نے مجھے اس کی کہانی لکھنے کی تحریک دی۔سقراط نے کہا جرمانہ دینے کے معنی یہ ہیں کہ میں بھی اپنے آپ کو مجرم سمجھتا ہوں۔ میں نفرت سے اس کو نا منظور کرتا ہوں۔آج کل بے عین یہی صورت حال ملک کے ایک سابق سپہ سالار کے ساتھ چل رہی ہے اور ہم بھی نفرت سے اس الزام کو مسترد کرتے ہیں،ملک کی خاطر جنگیں لڑنے والا بلکہ ہر فورم پر ملک کا دفاع کرنے والا اگر غدار ہے تو پھر یہاں کوئی بھی محب الوطن نہیں سات لاکھ فوج ایک غدار کے جھنڈے تلے لڑتی رہی ہے۔
سزائے موت کے حکم کے بعد حکومت کی ایک خاص مذہبی رسم کی ادائیگی کی وجہ سے سقراط کو تیس دن قید خانے میں رہنا پڑا۔ بعض دوستوں نے اسے صلاح دی کہ وہ قید خانے سے فرار ہو جائے وہ ہنس پڑا اور کہا کہ۔ پہلے مجھے ایسی جگہ بتائو جہاں موت نہیں پہنچ سکتی۔ تیسویں دن اس کی بیوی اور تین بچے اس سے ملنے آئے۔ سقراط نے انہیں آخری کلمات کہہ کر رخصت کر دیا۔اتنے میں قید خانے کا ملازم آیا اور کہا۔ جب میں کسی مجرم کو زہر کا پیالہ دیتا ہوں تو وہ مجھے کوسنا شروع کر دیتا ہے لیکن تم معقولیت پسند ہو اور جانتے ہو میں حکومت کے حکم کا پا بند ہوں اگر تمہیں کوئی شکایت ہے تو ان سے ہونی چاہیے مجھ سے نہیں ۔ اب زہر پینے کی تیاری کرو ۔”سقراط نے کہا بہت بہتر میں تیار ہوں لیکن میرے خیال میں مجھے نہا لینا چاہیئے۔ تا کہ غسال کو میری نعش دھونے کی تکلیف نہ اٹھانی پڑے۔’پھر بعد میں زہر کا پیالہ لے کر پی لیا ۔افلاطون نے کہا دنیا کے سب سے منصف اور سب سے نیک آدمی کا یہ انجام تھا ۔سقراط نے اکہتر سال عمر پائی ۔اس حکیم کا زمانہ 470 تا399 تھا۔کہانیاں کبھی ختم نہیں ہوتیں نام مقام اور تاریخیں ضرور بدل جاتی ہیں فوج میں اس لحاظ سے بے چینی پائی جاتی ہے کہ کبھی کوئی اسے شہادت کے مرتبے سے گرانے کا فتوہ دے دیتا ہے اور کبھی ان کے سپہ سالار کو غدار ٹہرا دیا جاتا ہے حالانکہ آئین شکن غداری کی تعریف میں نہیں آتا پھر تو روزانہ جتنی آئین شکنیاں ہوتی ہیں ان سارے ملزموں یا مجرموں کو غدار قرار دیا جائے ۔ جبکہ مزے کی بات یہ ہے کہ لال مسجد والے مولانا عبدلعزیز نے خود پاکستان کے آئین کو غیر شرعی قرار دے کر مسترد کر دیا ہے یا تو پہلے ان کی گردن ماری جائے۔
پھر ان لوگوں سے حساب لیا جائے ،جنہوں نے اس آئین شکنی کو جائز قرار دیا، پھر ان طالبان سے جواب لیا جائے انہوں نے کس قانون کے تحت ساٹھ ستر ہزار لوگوں کا خون بہایا پھر ان حکمرانوں کو کٹہرے میں لایا جائے وہ کس آئین کے تحت ان قاتلوں کو مذاقرات کی ٹیبل پر لانا چاہتے ہیں کیا ان ستر ہزار مقتولین کے ورثا نے انہیں اختیار دیا ہے کہ وہ ان قاتلوں کو معاف کریں بلکہ ان کے مزید ساتھیوں کو بھی رہا کر کے ان کے حوالے کریں اور انہی کی شرائط پر من و عن عمل بھی کریں۔تو پھر حکومت اور آئین کی رٹ کہاں ہے ؟ اگر جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی رٹ پر ہی عمل کرنا ہے تو پھر چھوڑ دیں آئین آئین کھیلنا۔یہ ملک ان کے حوالے کریں جو اس میں اپنی رٹ قائم کر سکیں چاہے وہ فوج ہو چاہے وہ طالبان ہوں تاکہ لوگ فیصلہ تو کر سکیں کہ زندگی تجھے کیسے جیا جائے۔