تحریر : شہزاد عباسی انسان کی برق رفتار زندگی میں کوئی نہ کوئی جگاڑ لگا رہتا ہے اور نفسا نفسی کہ اس انتہائی نازک موڑ پر اگر ہم کسی فارغ ترین شخص سے بھی بات سننے کو کہیں گے تو وہ کہے گا بھائی ٹائم کھوٹی مت کرو، کام کی بات ہے تو کرو ۔ جی ہاں! آج کی صدی میں بہت کم لوگ ہیں جو دوسرے کے کام آنے کی مشق کرتے ہیں اور غریبوں ، یتیموں، مفلوک الحال اور بے آسرا لوگوں کی امداد کو آگے آتے ہیں۔تاہم پاکستانی قوم دنیا کی کی سخی ترین قوم ہے جو لوگوں کے دکھ ، درد اور غم کا مداوا بھی کرتی ہے اور اس احساس کو بھی قائم رکھتی ہے کہ لاچار لوگوں کی مدد کرنا اخلاقی ، معاشرتی و دینی فریضہ ہے اور اللہ کی قسم یہ لوگ کامیاب و کامران ہیں۔ قرآن عظیم الشان اوراحادیث میں جہاں مختلف مفلوک الحال لوگوں کا ذکر ہے وہاں یتیموں کی زندگی کا خیال رکھنے اور معاشرے میں انہیں بہترین مقام دینے کا بھی بارہا تذکرہ ہواہے۔
خاص کر وہ حدیث جسمیں حضورﷺ نے فرمایا ، کا مفہوم یہ ہے کہ یتیموں کا کفیل اور میں جنت میں اس طرح ہونگے جسے شہادت اور ہاتھ کی درمیانی انگلی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر دوسروں کے کام آنے کا احساس ہمارے معاشرے میں صحیح معنوں میں اجاگر کیا جائے اور صاحب ثروت حضرات یا قدرے بہتر حال لوگوں کو یہ آگاہی دی جائے کہ معاشرے کے ستم سے تنگ اور غریب غرباء انہی کی ذمہ داری ہیں تو یقین جانیے کہ نہ کوئی غریب رہے گا، نہ گداگر، نہ ڈاکو،اور نہ ہی کوئی معاشرتی ناہمواری جنم لے گی۔ کچھ مسلم ممالک عراق ،افغانستان، فلسطین اورشام میں بھی گزشتہ چند سالوں سے جاری خانہ جنگی کے باعث یتیم بچوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ دنیا میں ہر 30 سیکنڈ میں 2 بچے یتیم ہوتے ہیں اور دنیا میں اِ س وقت15کروڑ 30 لاکھ بچے یتیم ہیں۔ اِن15کروڑ 30 لاکھ جس میں سے 6 کروڑ یتیم بچے صرف ایشیا میں موجود ہیں۔
اِن بچوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اگر یہ یتیم بچے انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائیں تو پوری دنیا کے گرد حصار بن سکتا ہے۔ ۔اقوام متحدہ کے ادارہ ’’یونیسف‘‘ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں42 لاکھ بچے یتیم ہیں جن کی عمریں 17 سال سے کم ہیں۔رمضان المبارک کے ابتداء سے ہی میں نے ارادہ کیا تھا کہ اس بار یتیموں کے حوالے سے ضرور لکھو ں گا اور پاکستان میں انکے حقوق پر کام کرنے والے اداروں کو بھی خراج تحسین پیش کرونگا۔ رمضان کی آمد کیساتھ ہی الخدمت فاؤنڈیشن کی طرف سے افطار ڈنر اور ہیلپنگ ہینڈ کی جانب سے آفس وزٹ کے دعوت نامے موصول ہو ئے اور یتیم بچوں کے حوالے سے کافی کچھ جاننے کو ملا۔ انتہائی تڑپ کے باوجودپاکستان آرفن کیئر فارم کے ممبران ایدھی ، انجمن فیض الاسلام، سویٹ ہومز وغیرہ میں نہیں جا سکا۔
Al Khidmat Foundation
الخدمت فاؤنڈیشن کی طرف سے ایک شام انور مسعود کیساتھ اور باہمت بچوں کے نام میں شریک ہوا اور وہاں چہکتے اور مہکتے پھول کی کلیوں جیسے یتیم بچوں اورالخدمت کے لوگوں کیساتھ انور مسود کو دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا ۔ایک خوبصورت اور منکسرالمزاج شخصیت محمد عبدالشکور صدر الخدمت فاؤنڈیشن سے ملاقات ہوئی انہوں نے بتایا کہ الخدمت فاؤنڈیشن نے یتیم بچوں کے لیے اپنے الخدمت کفالت یتامیٰ پروگرام کے تحت آرفن فیملی سپورٹ پروگرام اورآغوش الخدمت کاآغاز کیا۔ جس میں’’آرفن فیملی سپورٹ پروگرام‘‘ کے تحت ملک بھر میں6,600 یتیم بچوں کی کفالت کر رہی ہےاِن6,600 بچوں کو ملک بھر میں33 کلسٹر(Clusters) میں سے چُنا گیا ہے۔ہر کلسٹر(Cluster)میں 1 انچارج فیملی سپورٹ آرگنائزر ہے ۔ یہ فیملی سپورٹ آرگنائزر بچوں، ان کے خاندان اور تعلیمی ادارے کے سربراہ سے مسلسل رابطہ رکھتے ہیں۔بچوں میں سکول بیگ اور سٹیشنری کی تقسیم کے حوالے سے مختلف تقاریب کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔
تعلیمی اور دیگر بنیادی ضروریات کے ساتھ ساتھ بچوں کو سیر و تفریح، لیکچرز، دستاویزی فلمیں اور کھیلوں کے مقابلوں کے مواقع بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔ ایک بچے کی کفالت پر 3ہزارروپے ما ہواراور36 ہزار روپے سالانہ خرچ آتا ہے جس میں اُس کی تعلیم ،خواراک اور صحت کے اخراجات شامل ہیں۔الخدمت آغوش سینٹرز کے قیام کا مقصد والدین سے محروم بچوں کی پرورش و تربیت کے لئے قیام و طعام، تعلیم و صحت اور ذہنی و جسمانی نشو نما کے لئے ساز گار ماحول فراہم کرنا ہے۔ اس وقت الخدمت آغوش سینٹرز اٹک ،راولپنڈی ،راولاکوٹ ، باغ ،پشاور اور مانسہرہ میں550 بچے قیام پذیر ہیں۔
جبکہ اسلام آباد مری ایکسپریس وے پر 400بچوں کے لئے آغوش مری،200 بچوں کے لئے آغوش کراچی ،200 بچوں کے لئے آغوش شیخوپورہ اور120 بچوں کے لئے آغوش گجرانوالہ اور120 بچوں کے لیے دیر کے منصوبوں پر کام تیزی سے جاری ہے۔اِس ماں جیسی آغوش عمارت میں ان بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے تعلیم یا فتہ انتظامی عملہ موجود ہے جو بچوں کے لیے نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں اور چائلڈ کئیر ڈویلپمنٹ کے لیے صحت مند ماحول کا اہتمام کرتاہے۔یہاں ایک بچہ پر 8,000 روپے ماہانہ اور 96,000 روپے سالانہ خرچ آتا ہے۔
Patient on Wheelchair
ہیلپنگ ہینڈ کیطرف سے ادارہ برائے ری ہیبلیٹیشن اور معذور افراد کی جامع بحالی کامنفرد فلاحی پروگرام بھی اپنی مثال آپ ہے ، کنٹری ڈائریکٹر فضل الرحمان انتہائی محسن انسان ہیں ، ان سے ملاقات ہوئی ، انہوں نے بتایا کہ ہیلپنگ ہینڈ نے آج سے دس برس قبل2005 کے تباہ کن زلزلے کے بعدہرقسم کی پیدائشی وحادثاتی ذہنی اورجسمانی معذوری میں مبتلا افرادکی سماجی، جسمانی، پیشہ ورانہ بحالی کے لیے سستی معذور افراد کی بحالی کے کام کا آغاز کیا تھا۔ خیبرپختونخواکے علاقے مانسہرہ میں ایک عالمی معیارکا جسمانی بحالی کاکمپلیکس تعمیر کیا گیا ہے۔اس پروگرام کے تحت مریضوں کو انتہائی کم قیمت پر فزیو تھراپی کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔
پیشہ ورانہ علاج کے ساتھ معاون آلات اورمصنوعی اعضاء بھی لگائے جاتے ہیں۔ سینٹر میں فزیو تھراپی‘ پیشہ ورانہ تھراپی اور مصنوعی اعضاء کی فراہمی کی جا رہی ہے جبکہ انسٹی ٹیوٹ آف ری ہیبلی ٹیشن سائنسز میں پیرا میڈیکل ڈپلومہ کورسز اورڈاکٹر آف فزیکل تھراپی پروگرام کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔
فیزیکل تھراپی کے تحت ادویات کے استعما ل کے بغیر فقط ایکسر سائز کی مدد سے فالج، لقوہ، پولیو، گھنٹھیا، جوڑوں کا درد، عرق النساء،ٹیڑھے پاؤں، آپریشن کے بعد پٹھوں کی اکڑاہٹ اور پٹھوں کی کمزوری کا علاج کیا جاتا ہے۔ اب تک اس شعبے شعبہ جات سے 90,000سے زائد افراد مستفید ہوئے ۔ آیئے آپ بھی آگے بڑہیے ، دیا جلایئے اور مشعل تھام کر یتیم بچوں کی کفالت کے اس مشن میں الخدمت فاؤنڈیشن ، ہیلپنگ ہینڈ اور ان جیسے اداروں کا بازو بن جایئے۔