فنا یا بقاء ؟؟

Fana Ya Baka

Fana Ya Baka

تحریر : شاہ بانو میر

آج بھی جو ہو ابراہیمؑ کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا

فرعون کو غرق کرنے کے بعد اس ذہنی غلام قوم کو اللہ پاک ان کی گزشتہ زندگی کے بدلے میں انعامات عطا فرماتے ہیں
جو ان سے پہلے کسی اور قوم پر نہیں اتارے گئے
من و سلویٰ جو تازہ صبح و شام اترتے
پینے کیلئے پتھر سے 12 چشمے جاری کئے گئے
تا کہ
موسیٰ ؑ کے ساتھ 12 قبیلے جھگڑے سے بچیں
پھر
ان پر آسمان پر بادلوں کا سایہ کیا گیا
ان کی سرکشی کے باعث 40 سال تک یہ وادی تیہ میں بھٹکتے رہے
جہاں سے چلتے رات کو وہیں واپس آ موجود ہوتے
اس دوران نہ ان کے لباس گرد آلود ہوئے
اور
نہ کپڑوں کے سائز میں فرق آیا
عمر کے ساتھ لباس اللہ کے حکم سے بڑہتا رہا
ان تمام انعامات سے ظاہر ہو رہا تھا
کہ
موسیٰ اللہ کے نبی ہیں
اور
وہ رب عظیم آسمان سے ان کیلیۓ روزانہ کی بنیاد پر پرندے حلال گوشت اور سلویٰ میٹھے کی ایک قسم اتار رہا ہے
6 لاکھ بندوں کی روزانہ ضیافت کسی انسان کے بس کی بات نہیں تھی
اس قوم کو اللہ نے عالم پر فوقیت دی
مگر
یہ اپنی سرکشی سے باز نہ آئی
اپنی ذہانت کو زبان کو ہمیشہ منفی انداز سے استمعال کرتے ہوئے جتنے عذاب ان پر اترے اس کی مثال بھی کسی اور قوم سے نہیں ملتی
کبھی اللہ پاک سے روبرو ملنے کا اصرار اور بدلے میں ایک بجلی چمکتی ہے اور 70 کے 70 سردار جل کر بھسم ہو جاتے ہیں
پھر
موسیٰؑ کے رونے فریاد کرنے پر کہ اے اللہ میں اپنی قوم کا سامنا کیسے کروں گا ؟
کیا جواب دوں گا ؟
اللہ سبحانہ و تعالیٰ انہیں راکھ سے دوبارہ انسان بناتے ہیں
اور
دوبارہ زندہ اس طرح کرتے ہیں
کہ
ایک پہلے زندہ ہوتا ہے
وہ دوسرے کی راکھ کو جلد بنتے اور پھر اس پر گوشت چڑہتے ہڈیاں بنتے دیکھتا ہے
یہاں تک کہ وہ دوبارہ پہلے جیسا انسان بن کر جی اٹھتا ہے
یوں سب نے ایک دوسرے کو راکھ سے دوبارہ زندہ ہوتے دیکھا
وہ تو ایمان لے آئے
مگر
یہ معجزہ طور سے واپسی پر جب اپنی قوم کو بتایا تو ان سرکشوں نے مان کر نہ دیا
حکم عدولی پر کوہ طور ان کے سروں کے اوپر لا کھڑا کیا گیا
کن اکھیوں سے طور کو اپنے اوپر دیکھتے اور توبہ استغفار کرتے
پھر وعدہ پورا کرنے کا اعلان کرتے
پہاڑ اللہ کی رحمت سے ہٹ جاتا تو پھر وہی سرکشی اور ضد
الغرض
ایسی عنایات اور ایسی سزائیں مسلسل کئی ہفتوں سے پڑھا رہی ہوں
کہ
خود پڑہتے وقت توجہ کیونکہ سبق کی طرف ہوتی تھی
خوف ہوتا تھا کہ کچھ غلط نہ سنا دوں
اس لئے شائد اس طرح خوف محسوس نہیں ہوتا تھا
جو اب پڑہاتے ہوئے ہوتا ہے
پھر
انہی مناظر کو پڑہاتے ہوئے نجانے ذہن نے کہاں قلابازی لگائی
اور
مناظر موجودہ وقت کے سامنے چلنے لگے
جتنے دعوےٰ موجود سیاسی قیادت نے بڑھ چڑھ کر کئے
پاکستان اور موجودہ سیاسی قیادت نجانے کیوں مجھے بنی اسرائیل کی یاد دلا رہی ہے
دعویٰ ریاست مدینہ کا اور اقدامات سب کے سب اسلام کے منافی؟
جیسے بنی اسرائیل کو کہا گیا تھا

مقدس شہر میں داخل ہو جاؤ
اللہ سے بخشش مانگتے ہوئے
حطة کہتے ہوئے
مگر
وہ حنطة کہتے ہوئے داخل ہوئے
سرکشی کا انداز اختیار کیا
انہیں کہا گیا
پھر حکم ہوا اللہ کے احکامات سنو تو
سمعنا و اطعنا کہو
ہم نے سنا اور ہم نے مانا
وہ سمعنا وعصینا کہتے رہے
ہم نے سنا اور نا فرمانی کی
آپﷺ کو راعنا کی بجائے راعینا کہتے رہے
ہماری طرف نگاہ کیجیۓ کی بجائے ادنیٰ درجے پر پکارنے لگے
زبان کو توڑنا مروڑنا ان کے لئے ہمیشہ باعث عذاب بنا
موجودہ سیاستدانوں کے کلپس مجھے بنی اسرائیل سے مماثلت رکھتے لگے
سبت کا قانون توڑنے پر سور اور بندر بنا کر ہلاک کئے گئے
ایسی ہی سرکش اور نافرمان قوم کا دور مجھے آج کا دور لگ رہا ہے
ہماری حد سے بڑہی سرکشی لا علمی اسلام سے دوری
بے دین لوگوں کا اجماع اور اعلیٰ مقاصد کا خاک ہونا
رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی
سیاسی طور پے کھائی میں گراتے گئے اور خود کو مشہور کرتے گئے
مقاصد صفر ہو کر رہ گئے
اس وقت ملک کو ایک طرف کھائی اور دوسری طرف کنواں دکھا رہی ہے
اس عوام کو اس سے پہلے اتنا بڑا جھٹکا سیاسی میدان میں کبھی نہیں لگا
کیونکہ
ہمیشہ سامنے عام سیاستدان ہوتے تھے جو غلطیاں کرنےو الے انسان ہی تھے
اس بار شور ایسا مچایا گیا گویا فرشتے آ گئے ہوں
اور
آتے ہی فضا مقام ماحول سب کا سب تبدیل ہو جائے گا
یعنی
حکومت آتے ہی آسمان سے من و سلویٰ نازل ہوگا
رحمتوں والے 12 چشمے پھوٹیں گے سب سیراب ہوں گے
مگر
سامنے کشکول ہے آئی ایم ایف کا
اللہ کا شکر ادا نہ کیا کہ جس نے مسند خلافت پر بٹھایا
بلکہ
آپ نے تکبر غرور کو وطیرہ بنا لیا
میں نہیں چھوڑوں گا ؟؟؟؟
آپ کون ہیں؟
کیا حیثیت ہے آپ کی؟
اگلے سانس پر قدرت نہیں رکھتے اتنے بڑے بڑے دعوےٰ
آخر کیوں؟
سنا سنایا اسلام پڑہا پڑہایا دین ؟
جس ملک کیخاتون اول کہے کہ

“”میں اللہ سے نبی پاکﷺ اور بابا فرید سے عشق کرتی ہوں””

آپ کی دینی تعلیم مشکوک ہو گئی
کیونکہ
اللہ رب العزت کا فرمان ہے
“”اطیعو اللہ و اطیعو الرسول “”
“”اللہ کی اطاعت اور نبی کی اطاعت “” کرنے کا حکم جا بجاہ ہے قرآن مجید میں
“”بابا فرید کا کہیں ذکر نہیں””

بزرگان دین کی دینی خدمات کی وجہ سے ان کا احترام قیامت تک واجب ہے
مگر
اللہ اس کے نبی ﷺ کے مد مقابل لا کر برابری دینا شرک نہیں تو اور کیا ہے؟
عمران خان اللہ کے حضور عاجزی سے سر جھکا لیں
معافی مانگ لیں
اس زبان درازی پر جس کا مقصد صرف حصول اقتدار تھا
ہر وعدے سے آپ پیچھے ہٹے
کیاآپ صادق اور امین ہیں
میڈیا آپ کے سابقہ کلپس چلا چلا کر آپ کو دروغ گو ثابت کر رہا ہے
قوم کے سامنے توبہ کریں
کہ
مجھ سے غلطیان ہوئیں اس زبان کو بے تحاشہ تیزی سے استعمال کرنے سے
اللہ معاف کرنے والا ہے ٌ
اعلیٰ ظرف لوگ مخالفین کے ساتھ احترام عزت سے پیش آتے ہیں
ملک کو خانہ جنگی کی نہیں اجتماعیت کی ضرورت ہے
اپنی اکڑی ہوئی گردن کا”” سریہ”” نکالیں
سر کو جھکائیں سب کو ملک کے وسیع تر مفاد کیلئے ساتھ لے کر چلیں
پھلدار درخت جھکا رہتا ہے
آپ رشتے تعلقات سب بوجھ اتار کر ہلکے ہو کر چلنا پسند کرتے ہیں
جو کسی بھی بردبار عہدے کیلئے خطرے کا نشان ہے
وزن اٹھا کر چال میں دھیما پن لا کر چلنے کی پریکٹس کیجیۓ
کام آئے گی
لکھنے کو اتنا کچھ ہے کہ بیاں مشکل ہے
لیکن
ماں ہوں اس ملک کی بیٹی ہوں درد ہے دل میں ملک کا عوام کا اس نسل کا
تنقید طنز نہیں کرنا
تعمیری سوچ لکھنی ہے
جس سے ملک کو بچایا جا سکے
وہ صرف ایک ہے
“”جھک جائیں عاجزی اختیار کریں””
معافی مانگیں اپنے سپورٹرز سے کہ سیاست کیلئے
آپ نے حد سے تجاوز کر کے ملک کا ماحول خطرناک درجہ حرارت تک پہنچا دیا
معافی رب سے ہو یا اس کے بندوں سے
الحمد للہ
عافیت ہی عافیت ہے
کامیابی ہی کامیابی ہے
اس زبان پر قابو پا کر سوچ کا حسن نکھاریں
سیاسی انتقام کی بجائے باہمی اعتماد اور ملک کی ترقی کیلئے مل کر چلنے کی تجویز پیش کریں
زبان درازی بد لحاظی بد تہذیبی ملک کے وزیرا عظم کو زیب نہیں دیتی

عمران خان مومن ہیں ریاست مدینہ کا قیام چاہتے ہیں تو
خود کو نبیﷺ کا امتی بنا کر پیش کرنا ہوگا ٌ
اس قرآن سے ہدایت لینی ہوگی
صحابہ کرام کے خلق کی پیروی کرنی ہوگی
طبع تابعین کی تعلیمات کو جاننا ہوگا
“”بزرگان دین کے چمکتے مزاروں میں پنہاں ان کی عبادات کے نور کی تجلیات کو دیکھنا ہوگا””
جھک جانے والا اللہ بلند کر دیتا ہے
اکڑنے والے کیلئے اللہ پاک کے ہاں صرف اور صرف غرقابی ہے
قرآن مجید کا مطالعہ کیجیۓ
اپنا راستہ خود متعین کیجیۓ
فنا کا یا بقا کا؟

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر