قارئین آپ نے زندگی میں کبھی نہ کبھی مشاہدہ کیا ہوگا میں نے تو اپنی آنکھوں سے متعدد بار اس عمل کو بغور دیکھا اور اس کے منظقی انجام تک پہنچنے کے عمل سے مجھے اپنی دُھن کے پکے بچے کا مکمل خاکہ مل گیاجو اپنی ضد کو پوری کرنے کے لئے آخر ی حد تک جاتا ہے اور بامراد لوٹتا ہے۔اگر ایک معصوم بچہ کھلونا لینے کی خواہش کا اظہار اپنی ماں سے کر بیٹھے اور ماں اس کی خواہش کو ٹالنے لگے تو آہستہ آہستہ یہ منظر ماں اور بچے کی سسپنس بھری کہانی بن جاتا ہے اس کہانی کے شروع شروع میں تو بچے کو ماں مختلف حیلوں بہانوں سے ٹالتی ہے مگر آہستہ آہستہ اس کی ضد بڑھنے لگتی ہے ماں یہ سمجھتی ہے اب یہ مجھے تنگ کرے گا اور بچہ سمجھتا ہے کہ اب مجھے ہر طرح سے اپنی ضد پوری کرنے کے لئے اقدامات اٹھانے ہوں گے اُس کی اس نفسیات کے پیچھے لاشعور میں چھپی وہ امید ہوتی ہے جو اس کا حوصلہ نہیں ٹوٹنے دیتی اورجو دنیا کے ہر بچے کو اپنی ماں سے ہوتی ہے جس سے وہ شفقت مادری سے با مراد لوٹتا ہے جوں جوں ماں کا بچے کو نظر انداز کرنے کا رویہ بڑھتا ہے بچے کی ضد بھی اسی نسبت سے بڑھتی جاتی ہے ماں اب اسے انجانے میں دھتکار دیتی ہے وہ رونا شروع کر دیتا ہے۔
ماں کام کاج میں لگ جاتی ہے اور وہ روتے روتے تعاقب میں لگ جاتا ہے ماں جان چھڑانا چاہتی ہے یکسوئی ڈھونڈتی ہے رونے والے لعل کو تھپڑ رسید کر دیتی ہے مگر اب اس کی ضد مزید بڑھ رہی ہوتی ہے وہ رونے کے ساتھ ساتھ اب غصے سے ماں کا آنچل پکڑ لیتا ہے ماں چھٹراتی بھی ہے جھٹکا بھی دیتی ہے جبکہ مزید تھپڑ رسید کر کے اس نو عمربچے کی ضد میں مزید اضافہ کرنے کے اقدامات کر دیتی ہے۔ اب رونے کے ساتھ ساتھ وہ زمین پر لیٹ کر احتجاج شروع کر دیتا ہے ماں مسلسل نظر انداز کیے جاتی ہے اب بچے کی چیخ و پکار قیامت سرپر اُٹھانے والی صورتحال اختیار کر لیتی ہے۔اب اندر کی چھپی مامتا شفقت بھری کروٹ لینا شروع کرتی ہے اور اس ضدی بچے کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا مرحلہ آنے کی چاپ سُنائی دیتی ہے بچے کی نفسیات بھی اُبھرتی ہے ماں کے ہاتھوں کا پیار بھرا لمس اسے اب اور زیادہ زور سے رونے پر مجبور کر دیتا ہے ماں بھی مسلسل نظر انداز کئے جانے کا مداوا چاہتی ہے اور بچہ بھی اپنے لا شعور میں چھپی امیدبھر آنے کے لمحات آنکھوں کے سامنے گھومتے ہوئے دیکھتا ہے ادھر ماں بچے کو پکڑتی ہے اور وہ ماںکے ہاتھوں سے مچھلی کی طرح پھسلتا ہے ان لمحات میں مامتا جذبات میں بہنے والی ہوتی ہے توپیار بھری زبردستی کرتے ہوئے اپنے نورِ چشم کو اپنی رحمت بھری آغوش میں سمیٹ لیتی ہے ماں اور بیٹے کے اس جذباتی ملاپ سے بچے کا رونا مدھم ہونا شروع ہو جاتا ہے اور ماں کا وہ احساس جاگ اُٹھتا ہے جو مسلسل نظر انداز کیے جانے کے دوران پیدا ہو چکا ہوتا ہے ۔وہ اپنے لعل کا مُنہ ماتھا چومنا شروع کر دیتی ہے صدقے واری جاتی ہے زلفیں سنوارتی ہے اُسی آنچل سے اُس کا مُنہ صاف کرتی ہے جو چند لمحے پہلے اُس بچے سے چھڑا رہی ہوتی ہے جذبات کے ان لمحات کے نزول ہونے پر ماں بچے کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈال کر اُسے بامراد لوٹا دیتی ہے۔
اسی مثال کے مصداق ایک ضدی پلے بوائے عمران خان نے 22 سال قبل ایک ضد پکڑ لی کہ وہ اپنی قوم کی بہتری اور مُلک کی ترقی و خوشحالی کے لئے کام کرے گا شروع شروع میں تو اس کے اقدام کو دیوانے کی بڑھک قرار دیا گیا مگر اس بچے نے بامراد لوٹنے تک اپنی ضد کو ترک کرنے سے صاف انکار کر دیا دھرتی ماں اور قوم سے اپنی ضد پوری کروانے کے لئے جدو جہد تیز کر دی قوم نے مسلسل نظر انداز کیا اپنا پہلو بچانے کے لئے آنچل کو چھڑایا قوم نے اس ضدی بچے کی عزت نفس بھی مجروح کی کبھی اس دوران اسے یہودی لابی کا ایجنٹ اور طالبان خان کہا جانے لگا اور کبھی یوٹرن خان کا نام دیا جانے لگا جبکہ اُسے دو دفعہ الیکشن میں بھی خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی اور قوم نے اسے مایوس کیا۔ضدی پلے بوائے کو یہ طعنے بھی سننے پڑتے ہیں کہ جو اپنا گھر بسا نہیں سکتا وہ ملک کیسے چلا سکتا ہے ۔مگر دھن کا پکا یہ پلے بوائے اپنے لا شعور میں اُمید کی وہ کرن لے کر چلا تھا جو بلآخر اسے بامراد کرنے والی تھی مسلسل نظر انداز کرنا بھی اس کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکا اس ضدی بچے کی طرح جو سر نڈر ہونے تک ماں کا پیچھا نہیں چھوڑتا بالا خر قوم کو 22سال بعد اس ضدی پلے بوائے پر ترس آہی گیا قوم نے اسے اٹھایا، سر آنکھوں پر بٹھالیا قوم مسلسل نظر انداز کرنے پر اس مامتا کی طرح تڑپ اٹھی جو صدقے واری جاتے ہوئے سب کچھ بھول جاتی ہے۔
دھرتی ماں اور قوم نے مل کر اسے وہ عزت دی اور اس کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے جس کی اسے بھر پور اُمید تھی اور یہ اس کے لاشعور میں گھر کر چکی تھی ،اب وہ ضدی پلے بوائے اس ملک کا وزیر اعظم بن چکا ہے اب قوم اور دھرتی ماں نے اس سے اُمیدیں وابستہ کر لی ہیں اب ماں کی وہ سوچ شروع ہو چکی ہے جو سرنڈر کرنے کے بعد اپنی جھولی میں لیٹے لعل کا ماتھا دیکھ کر مستقبل میں کھو جاتی ہے اور اس کی آنکھوں کے سامنے اپنے لعل کے ماتھے پر لگا سہرا گھومنے لگتا ہے اور اس کی شادی کے مناظر اس سے وابستہ اُمیدیں اور بہت کچھ سامنے ہوتا ہے اور بچے کا سہانا مستقبل اس کے چہرے پر خوشیوں کے جھر مٹ بکھیر دیتا ہے ۔اسے اپنا بڑھا پا بھی نظر آنے لگتا ہے ۔وہ دل ہی دل میں سمجھتی ہے کہ یہ بڑا ہو کر میری خدمت کرے گا، میرے بڑھاپے کا سہارا بن کر میری اس زندگی میں آسانیاں لانے کا موجب بھی بنے گا میرے تمام خواب پورے ہونگے جو میں نے دیکھے تھے اور وہ حُسین مستقبل دیکھا تھا اور اپنے لئے آسانیاں اور خدمت کی جو آس لگائی تھی ،جو توقعات وابستہ کر لی تھیں اب اس خیالات کی دنیا میں جانا چاہتی ہے اور اس کی عملی تعبیر دیکھنے کی اضطرابی کیفیت کے ساتھ منتظر ہے۔
اس ماں کی طرح یہ قوم بھی چاہتی ہے کہ اس کے بچوں کا مستقبل محفوظ اور خوشحال ہو، ان کے بچوں کو صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتوں کی مثالی فراہمی میسر ہو۔ زندگی میں ترقی کرنے کے مساوی مواقع ملیں، ان کے بچوں کو بھی صلاحیتوں کے مطابق ملک و قوم کی خدمت کا موقع ملے ،ان کو بھی باعزت روز گار ملے ،ان کو بھی انصاف تک مکمل رسائی ملے، انہیں بھی دھرتی ماں کی آغوش میں امن سکون کے ماحول کے ساتھ رہنا نصیب ہو، ان کے عزت نفس کے احترام کے ساتھ ساتھ ان کی خود داری بھی بحال ہو، وہ بھی اقوام عالم میں باوقار قوم کی طرح ان کے شانہ بشانہ ہو کر چل سکیں ،ان کی دھرتی ماں کی بھی ایک الگ پہچان ہو، وہ بھی فرقہ جات اور طبقات سے نکل کر قوم کا روپ دھار سکیں ،اُنہیں بھی ایک دیانتدار ،محنتی اور محب وطن قوم سمجھا جائے ،ان کا ملک کا مستقبل بھی محفوظ ہاتھوں میں منتقل ہو سکے اب پوری قوم کی نظریں عمران خان پر مرکوز ہو چکی ہیں۔ غیر روایتی دیانت دار لیڈر کی صلاحیتوں کا امتحان شروع ہو چکا ہے، اب اس امتحان میں کامیابی کے لئے قوم اجتماعی طور پر ان کے لئے دعا گو ہے ۔اللہ ان کی مدد و نصرت فرمائے اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ (آمین)!