زندگی درد و مصائب سے بھری دنیا میں ہم نے جِس طور گزاری ہے سنائیں کیسے اِک غم عشق کا ہو بوجھ تو سہ پائیں اسے اِس غمِ دہر کے صدمات اٹھائیں کیسے ہم نے کچھ تیرا بگاڑا تھا نہ دنیا کا کبھی پھربھی ہر اپنے پرائے سے دغا کھاتے رہے پا بہ زنجیر کھڑے عدل کے ایوانوں میں اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا پاتے رہے بھوک افلاس کو قسمت کا لکھا جان کے ہم خود کو اوہام و حوادث سے ہی بہلاتے رہے دل میں ناکام تمنائوں کے نوحے لے کر ہم تیری بزم میں نغماتِ طرب گاتے رہے تجھ کو پہنا کے قبا ریشم وکمخواب کی ہم اپنی عریانی کے ہر زخم کو سہلاتے رہے اب مگر ضبط کے موسم ہیں گزرنے والے اب تو اِس جبر و اذیت سے رہا ہونا ہے اولیں رسمِ اطاعت کی عملداری میں! آخری فرض بغاوت کا ادا ہونا ہے