ماہ رمضان کی آمد آمد ہے، ماہ صیام وہ مقدس مہینہ ہے جس کا ہر مسلمان کو شدت سے انتظار رہتا ہے۔ رمضان المبارک کو تمام مہینوں میں افضل قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں اس مہینے کی فضیلتوں اور برکتوں کا ذکر کثرت سے کیا گیا ہے۔ کیونکہ اس مہینے میں دن رات رحمت برستی ہے۔ اس مہینے میں جنت کے سارے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ مسجدیں آباد ہو جاتی ہیں۔ ہر مسلمان مرد اور عورت کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ وقت عبادت الہی میں گزارے کیونکہ یہ مسلمانوں کے لیئے نجات کا مہینہ قرار دیا گیا ہے۔
رمضان المبارک میں احتراماََ ہوٹلزاور فاسٹ فوڈ پوائنٹس وغیرہ جہاں سے کھانے پینے کی چیزیں دستیاب ہوتی ہیں۔ دن کو بند ہوتے ہیں۔ ماسوائے چند مریضوں اور مسافر ہوٹلوں کے، دکانیں بند ہونے کی وجہ سے دوکانداروں کی خریدوفروخت ماند پڑ جاتی ہے۔ اور یوں مہنگائی کا جن بوتل سے باہر آجاتا ہے۔
جس کی وجہ سے خط غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے اکثر خاندان روزہ جیسی مقدس عبادت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اس سال روزے جون کی جھلسا دینے والی گرمی میں شروع ہو کر جولائی میں اختتام پذیر ہوں گے۔ جولائی میں سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ اپنی تابانی دکھاتا ہے۔ موجودہ حکومت کی طرف سے دیا گیا تحفہ “لوڈشیڈنگ” بھی روزہ داروں کو کھلے دل سے قبول کرنی ہو گی ۔ بہرحال بات ہو رہی تھی رمضان بازاروں کی۔
پچھلے برسوں کی طرح اس بار بھی پنجاب حکومت نے غریب لوگوں کی دعائیں اور رب کی رضائیں حاصل کرنے کے لیئے پنجاب حکومت نے غریب لوگوں کی دعائیں اور رب کی رضائیں حاصل کرنے کے لیے پنجاب بھر 2000 مدنی دستر خوان اور3500 رمضان بازار لگا رکھے ہیں اور ان رمضان بازاروں کے لیئے پانچ ارب روپے مختص ہیں۔ اور وفاقی حکومت نے یوٹیلٹی سٹورز کے لیئے دو ارب روپے کا کوٹہ مختص کر رکھا ہے۔
ان رمضان بازاروں کا مقصد غریب لوگوں کو مارکیٹوں کی نسبت انتہائی کم نرخوں پر ضروریات زندگی کی تمام اشیاء فراہم کرنا ہے مگر یہاں تو اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ متعلقہ حکام ملی بھگت کر کے کوٹے میں ملنے والی اشیاء اور گرانٹ خوردبرد کر کے خود ہڑپ کر لیتے ہیں۔ ان رمضان بازاروں کے مین گیٹوں پر خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی تصویر کے ساتھ ” سستا رمضان بازار ” کا جملہ پڑھنے کو ملتا ہے۔
رمضان بازاروں کے چاروں اطراف متعلقہ اسسٹنٹ کمشنر ، متعلقہ انسپکٹر ۔ ٹی۔ایم۔او ۔تحصیلدار ، میڈیکل آفیسر ، ایڈمنسٹر یٹروسیکرٹری مارکیٹ کمیٹی و دیگر لوگوں کو اپنی اپنی پبلٹی کا زبردست موقع ملتا ہے۔ان کے سائن بورڈ اور پنیا فلیکس کو دیکھ کر گماں ہوتا ہے کہ ہم کسی بڑی سرکس کے ٹینٹ کو دیکھ رہے ہیں اور اردگرد جانوروں اور فنکاروں کی تصاویریں آویزاں ہیں اکثر دیہاتی تو گیٹ پہ بیٹھے ملازموں سے پوچھ ہی لیتے ہیںکہ شو کب شروع ہو گا؟یوں لکھوں تو بے جا نہ ہو گا کہ شریف حکومت کو صرف سیاست اور نام چمکانے کا شوق ہے۔
دیکھنا یہ ہو گا کہ پنجاب حکومت رمضان بازاروں سے غریبوں (روزہ داروں) کی خدمت کر رہی ہے یا پھر تجارت کر کے اپنی تجوریاں بھر رہی ہے؟اور ہاں تجارت تو ہمارے ان شریف بردران کا پسندیدہ مشعلہ ہے تو یہ کیوں نہ ہر شعبہ میں تجارت کریں گے؟پہلی بات تو یہ ہے کہ رمضان بازار شہر سے دور بنائے جاتے ہیں تاکہ اس شدید گرمی کی وجہ سے لوگ ادھر کا رخ ہی نہ کریں، دوسری بات یہ کہ اتنی دور بازاروں میں جا کر لائن میں کھڑے ہوہوکر انہیں چیزیں مارکیٹ ریٹس سے اکا دکا روپے کپ نرخوں پر رمضان بازاروں سے ملیں تو ان کی بلا جانے۔
Flour
اکثر لوگ شہر سے ہی سامان پرچیز کر لیتے ہیں کیونکہ رمضان بازاروں میں تو آٹا، چینی، گھی، دالیں، چاول وغیرہ تو ہمیشہ شارٹ ہی ہوتے ہیں رہی بات سبزیوں اور پھلوں کی تو وہ تقریباً ایک جیسے نرخوں سے سبزی منڈی سے مل جاتی ہیے اس لیے کوئی زحمت ہی نہیں کرتا اور اگر کوئی یہ غلطی کر ہی بیٹھے تو اس کے نصیب میں گلی سٹری سبزیاں و پھل اور ُسسرے والی سوجی،میعدہ، کیڑوں والی دالیں اور چاول ہی آتے ہیںجس سے پنجاب حکومت کی کارگردگی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ یہ عوام کی خدمت کے لیئے کس قدر کوشاں ہے۔
ایڈمنسٹریٹرز فرضی انٹریاں ڈال ڈال کے رجسٹروں کے ورق کالے کر ڈالتے ہیں۔آٹا وغیرہ نہ ملنے کی وجہ سے عوام اور انتظامیہ ایک دوسرے سے دست و گریباں نظر آتے ہیں۔ رمضان بازاروں میں بیچاری نرسوں اور ایل ایچ ویز کو علاج معالجہ کیلئے پابند کیا جاتا ہے مریض تو کوئی آتا نہیں مگر ان کے اردگرد عیاش طبقہ لوگوں کا ہجوم ضرور نظر آتا ہے۔اور بیچارے رضاکاراں چاہے سورج اپنی آنکھیں دکھا رہا ہو یا بادل آنکھ مچولی کھیل رہا ہو انہوں نے گیٹ پر چوکیداری کے فرائض نبھانے کے ساتھ ساتھ پل پل گزرنے والے آفسر شاہی کو سلوٹ بھی کرنا ہوتا ہے اور غریبوں کی قسمت میں تو صبح سے شام تک لمبی قطاریں بنانا ہوتی ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب ایک مانیٹر سیل بنا کر ان رمضان بازاروں کی چیکنگ کروائیں اور کرپٹ ذمہ دران اور اشیاء خوربرد کرنے والے ملازمین کے خلاف کاروائی کرکے اسے انصاف کے کہٹرے میں لاکھڑا کریں اور اگر ان رمضان بازاروں پر خطیر رقم خرچ کرنے کی بجائے حکومت مہنگائی کو کنٹرول کرے تاکہ عوام کو ضروریات زندگی کی اشیاء رمضان بازاروں کی بجائے عام دوکانوں سے کم سے کم نرخوں پر مل سکیں یہ کب اور کیسے ہو گا مجھے اس کا انتظار رہے گا۔
Mubarak Shamsi
تحریر:سید مبارک علی شمسی ای میل۔۔۔۔۔mubarakshamsi@gmail.com