تحریر : انجینئر افتخار چودھری جسے یہ شک ہے کہ ہم بحثیت قوم مر چکے ہیں اسے اس تصویر کو دیکھنا چاہئے۔اللہ کے کرم سے ایک زندہ پاکستان آپ کو نظر آئے گا مجھے زمرد خان کے اس عمل کی ستائیش ایک لاکھ بار بھی کرنا پڑے تو کم ہے۔لیکن آج اس تصویر میں ایک نوجوان جو زمرد خان اور بچی کی تصویر کی دائیں جانب دکھائی دیا تو اس تصویر نے مجھ پر یہ گرہ بھی کھول دی کہ ابھی کچھ لوگ ہیں اس جہاں میں۔ سچ پوچھیں ہم خود احتسابی میں کبھی کبھی بہت دور نکل جاتے ہیں ہو سکتا ہے ہمارے سیاست دان غلط ہوں جج اور جرنیل کرپٹ ہوں لیکن انسانیت ابھی زندہ ہے۔
میں اللہ تعالی سے کبھی مایوس نہیں ہوا کبھی جب دل ٹوٹتا ہے تو پھر کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ہو جاتا ہے جو مجھے حوصلہ دیتا ہے۔مجھے علم ہے کہ اس کیس کو ہائی پروفائل کیوں بنایا گیا ہے کس کی سازش ہے کون میڈیا پر نوٹ نچھاور کر رہا ہے لیکن آج مجھے اس لینڈ مافیا کے ڈان کی بات نہیں کرنی۔وہ شخص جو خرید لینے کا ماہر ہے اس کا ذکر نہیں کرنا ۔مجھے اس نوجوان کی آنکھوں میں حسرت و یاس کی ایک جھلک نظر آئی جو ہمارے معاشرے کا حسن ہے کس یاس بھری نگاہوں سے اس بچی کو دیکھ رہا ہے ہمدردی پیار اس کی آنکھوں سے امڈ رہا ہے ٹھوڑی پر رکھے ہاتھ آنکھوں میں ہمدردی کے ابلتے چشمے میں نے دیکھے کیا آپ بھی دیکھ رہے ہیں؟۔
ہم نے در اصل اپنی اچھی قدروں کو ابھارا ہی نہیں۔دنیا میں جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم پاکستانی سب سے زیادہ خیرات دینے والے لوگ ہیں چاہے وہ راستے پے کھڑا ایک چالاک شخص ہی کیوں نہ ہو۔میں ایک ایسے نوجوان کو جانتا ہوں جس کا نام لینا مناسب نہیں ہو گا اسے میرے بھانجے نے کہا کہ یار ایک غریب بچی کی شادی ہے مدد کے لئے اس نے اپیل کی ہے مگر میں اس وقت کچھ کر نہیں سکتا میں سن کر حیران رہ گیا کہ اس نوجوان نے اپنے دوست کو پچیس ہزار روپے دئے اور کہا میں اپنی کمائی میں سے ہر ماہ اتنے پیسے اللہ کے راستے میں خرچ کرتا ہوں میری جانب سے یہ معمولی رقم اسے دے دینا۔یقینا وہ پاکستانی تھا ایسے کئی ہوں گے مگر ہوتا کیا ہے ہم اچھائی کا تذکرہ نہیں کرتے ہمیں کسی جگہ معمولی سی تکلیف ہو ہم چلانا شروع کر دیتے ہیں لیکن کبھی پاکستان کی اچھائی کو ابھارا نہیں ہے۔
آپ کو علم ہو گا کہ اس پاکستانی معاشرے کو برا بھلا کہنے فوج کو گالی دینے کے پیسے ملتے ہیں پاکستان اور دو قومی نظرئیے کے خلاف بات کیجئے اس کی ایٹمی طاقت پر تنقید کیجئے پیسے ملیں گے میں نے ایک بار پہلے بھی کہیں لکھ کر بتایا تھا اسلام آباد میں بہت سی این جی اوز صرف اور صرف پاکستان کا نام بدلنے کے لئے سیمینار منعقد کرواتی ہیں نوجوان لیڈر شپ کو پانچ ستارے والے ہوٹلوں میں بلا کر ایک کھانے کی قیمت پر ان کے کانوں میں یہ زہر گھولا جاتا ہے کہ پاکستان کے تما م مسائل کی جڑ اس کے نام کے ساتھ اسلامی ہونا ہے۔
Zamurd Khan
اسلامک یونیورسٹی کی ڈگری کو اس لئے بدنام کیا جا رہا ہے کہ اس ڈگری پر اسلامی نام لکھا ہوا ہے۔ان لوگوں کو علم ہے کہ کرسچیئن کے نام پر ہزار ہا سکول ہیں لیکن اسلام کے نام پر چند ایک بھی گوارا نہیں۔ اس نوجوان کی آنکھ میں جو دکھ اس معصوم بچی کے لئے ہے وہ ایک بڑا دکھ ہے۔میں زمرد خان کو بھی دیکھ رہا ہوں یقین کیجئے مجھے خطہ ء پوٹھوہار کے اس فرزند پر فخر ہے۔زمرد خان نے بیت المال کے چیئرمین کی حیثیت سے مخلوق خدا کے دکھ بانٹنے کی کوشش کی ہے اور وہ راستے متعین کر دئے ہیں جن سے ہٹنا کسی بھی آنے والے کے لئے ناممکن ہے۔ان کے بعد آنے والے بیرسٹر عابد شیخ نے یہ شمع جلائے رکھی ہے ۔ زمرد خان کی ہمالہ جیسی نیکیوں اچھائیوں کو دیکھ کر جہاں دل خوش ہوتا ہے جب اس مرد جری کو آصف علی زرداری ،بلاول زرداری کے پیچھے ایک تابع فرماں کی حیثیت سے کھڑے دیکھتا ہوں تو دل دکھی ہوتا ہے دل کہتا ہے کناں چنگا ائے پر کھلوتا کتھے اے۔ پاکستان پیپلز پارٹی ایک سیاسی جماعت ہے اور جماعتوں میں سارے ہی اچھے نہیں ہوتے لیکن جماعتوں کے لیڈران کا تقابل کیا جاتا ہے اس وقت سراج الحق ہیں عمران خان ہیں نواز شریف اور زرداری ہیں زمرد خان پہلے تو انتحاب یہ کریں کہ وہ عبدالستار ایدھی کی طرح صرف ویلفیئر کا کام کریں یا اگر سیاست کرنی ہی ہے تو باقی افراد میں کسی ایک کو چن لیں۔ویلفیئر ان کے لئے ایک عظیم انتحاب ہو گا۔ بہتر ہے وہ بس یہی کام کریں عبدالستار ایدھی کی موت کے بعد ایک خلاء پیدا ہوا ہے وہ پر ہو جائے گا۔
تصویریں بولتی ہیں اس تصویر میں پاکستانی قوم کا مثبت پہلو واضح ہے کہ ہم اپنی بچوں کے نگہبان ہیں۔زلزلے میں جب دوسرے ملکوں نے بچوں کو لینے میں دلچسپی ظاہر کی تو سویٹ ہومز نے ان بچوں کو گلے سے لگایا ۔پچھلے دنوں عمران خان جب وہاں گئے تو ان بچوں کو دیکھ کر دلی خوشی ہوئی کہ ہم نے اپنا مستقبل کسی اور ملک کے حوالے نہیں کیا۔پاکستانی قوم وہ بہادر قوم ہے جس نے چالیس لاکھ افغانیوں کو دل سے لگایا یہ قوم اپنے بچوں کو کہاں جانے دیتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان ان این جی اوز پر نظر رکھے گرچہ وزارت داخلہ اس سلسلے میں اہم اقدامات اٹھائے ہیں لیکن ایک اور اہم بات کی توجہ چاہوں گا اور وہ یہ ہے کہ دو قومی نظرئیے پر بنا ملک لبرل فسادی اساتذہ کا حامل نہیں ہو سکتا ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک ایسا بورڈ بنایا جائے تو یونیورسٹیوں اور کالجوں کے اساتذہ پر کڑی نظر رکھے کہ یہ لوگ پاکستان کی نوجوان نسل کو اپنے منفی خیالات سے متآثر نہ کریں۔حال ہی میں ایک استاد جس کا نام سلمان حیدر ہے اس کے بارے میں جان کر حیرت ہوئی کہ وہ نہ صرف پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہے بلکہ اسلام میں انتہائی محترم ہستیوں کے بارے میں منفی خیالات کا اظہار کرتا ہے۔ہمیں سقوط ڈھاکہ کے پیچھے ہندو متعصب اساتذہ کے کردار کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔جنہوں نے بنگالی طلبہ کو ویسٹ پاکستان اور خصوصا پنجاب سے متنفر کروایا اور فوج کو پنجابی فوج قرار دیا۔
آپ سلمان حیدر کے بارے میں جان کر حیران تو ہوئے لیکن یہ دیکھئے کہ فرزانہ باری ہود بھائی کی وجہ ء شہرت ان کی تدریس نہیں بلکہ ان کی پاکستان دشمن سر گرمیاں ہیں۔تعلیم کے مقدس پیشے سے وابستہ یہ لوگ پاکستان پر گھات لگا کر وار کر رہے ہیں۔ہمارا اچھا اور پیارا پاکستان چند گندے انڈوں کی وجہ سے بدنامی کے گھڑے میں جا رہا ہے اس قسم کے اچھے لوگ جو زندہ ہیں ان کی تشہیر وقت کی اہم ضرورت ہے۔ہم زندہ قوم ہیں پائیندہ قوم ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں۔ اللہ تعالی اس ملک پاکستان کو شیطان کے شر سے بچا کر رکھے آمین۔