بلا شبہ زندگی قدرت کی طرف سے عطا کردہ ایک انمول تحفہ ہے ۔ انسان جب زندگی کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے تو اسے جہاں نت نئے تجربات سے بہت کچھ سیکھنے کے مواقع میسر آتے ہیں وہاں زیست کی راہ پر چلتے ہوئے بسا اوقات کچھ ایسی نابغئہ روزگار اور قد آور علمی شخصیات سے متعارف ہوتا ہے کہ جن کی علیمت، قابلیت ، فہم و فراست و علم و ادب سے جنون کی حد تک گہری وابستگی اور ان کے کارہائے نمایاں دیکھ کر ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے ۔ ڈاکٹر زاہد منیر عامر کا شمار وطن عزیز کے ان نام ورسپوتوں اور ممتاز علمی و ادبی شخصیات میں ہوتا ہے کہ جنہوں نے دنیائے علم و ادب میں اپنی بے نظیر صلاحیتوں اور علم و فن کا لوہا منوایا ہے۔ آپ ایک خوب صورت لکھاری ، صاحب طرزسفر نامہ نویس اور مایہ ناز شاعر ادیب ہیں ۔ آپ کا تعلق سرگودھا سے ہے۔
ابتدائی تعلیم سرگودھا ہی سے حاصل کی ،میٹرک کا امتحان گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 1 سرگودھا سے پاس کیا۔ اس کے بعد الیکڑیکل انجینئرنگ کی تعلیم گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی سرگودھا سے حاصل کی ۔ گورنمنٹ کالج سرگودھا سے گریجوایشن کرنے کے بعد اوورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹر کیا اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی یہیںسے حاصل کی۔ ڈاکٹر زاہد منیر عامر کے مطابق ”انہیں بچپن ہی میں گھر میں بھرپور علمی و ادبی ماحول میسر رہا۔ان کے والد ادبی ذوق رکھتے تھے ۔ انھوں نے ہندوستان کے زمانہ قیام میںکچھ کتابچے بھی لکھے تھے لیکن میں انھیں دیکھنے یا ان کی صحبت سے استفادہ کرنے سے محروم رہا۔ اس لیے کہ میں ابھی چار پانچ برس کا تھا کہ ان کا انتقال ہو گیا ۔ میری نشوونما میرے بڑے بھائی حبیب الرحمن ، میری والدہ اور میری بڑی بہن نجمہ منیر کی نگرانی میں ہوئی۔
والدہ صاحبہ ایک سادہ مزاج خاتون خانہ تھیںلیکن انھیں بھی شعر و ادب سے خاص شغف تھا ، جن کے بارے میں پوری کتاب ” جنت کا باغ ” لکھ چکا ہوں ، اسی طرح اپنے والد کو تو میں نے ہوش کی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن ان کے بارے میں بھی اپنے جذبات و احساسات ” ستارہ سحر” میں پیش کر چکا ہوں ۔ گھر میں بڑی بہن نجمہ منیر اور میرے بڑے بھائی شاہد منیر شعر کہتے تھے ، ایک اور بہن شا ہدہ منیر کی طبیعت بھی شعر گوئی کی طرف مائل رہی تو میں نے اس ماحول سے ضرور ادبی اثرات قبول کیے ہوں گے مگر شعر کہنے سے قبل میں نے نثر لکھنا شروع کی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلی نثری تحریر ایک کتاب کی صورت میں لکھی”۔ ڈاکٹر زاہد منر عامر مصر کی معروف درسگاہ جامعہ الازہر میں اردو اور مطالعہ پاکستان کی سند پر درس و تدریس سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں ۔ اس دوران انھوں نے خود کو صرف جامع الازہر تک محدود نہ رکھا بلکہ ادبی حلقوں میں پاکستان اور اقبال کا پیغام بھرپور انداز میںپہنچایا اوروہاں کے مختلف بڑے انگریزی اور عربی اخبارات میں اپنی تحریروں ، مضامین اور کالمز کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر عالمی مسائل کے حوالے سے پاکستان کے موقف کو اجاگر کیا جس کی بہت پذیرائی ہوئی۔ ان خدمات کی بنا پر عالم عرب کے سب سے بڑے اخبار ” الاہرام” کی طرف سے انھیں سفیر ”بین الثقافتین” کا خطاب دیا گیا۔
اس کے علاوہ آپ کو دنیا کے مختلف ممالک جن میں شام ، لبنان، اردن، جرمنی، فرانس، اسپین اور سوئٹزر لینڈ تک جب کہ مشرق بعید میں جاپان تک اور بحر ہند میں مارشیس تک کے لوگوں کو اپنے وطن اور دنائے اسلام کے بے مثال مفکر علامہ اقبال کی تعلیمات سے آگاہ کرنے کا موقع ملا ۔ ڈاکٹر زاہد منیر عامر ابھی دسویں جماعت کے طالبعلم تھے جب ان کی پہلی کتاب منصئہ شہود پر آئی اور اب تک اس تسلسل کے ساتھ یہ سلسلہ جاری و ساری ہے ۔ 3 شعری مجموعوں کے علاوہ ، تنقیدی مضامین کے 3 مجموعوں سمیت ادبی، تاریخی اور تہذیبی موضوعات پر آپ کی 40 کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔ 6 سو سے زائد مقالات اور 4 سو کے قریب ٹی وی لیکچر زشامل ہیں ۔ آپ کے معروف سفر ناموں میں ” شام کی صبح، لبنان کی شام” جزیرے کا خواب ، ( مارشیس کا سفر نامہ) دیارِ شمس (ترکی نامہ) ”فی حب مصر (عربی) ” سقراط کا دیس ( سفر نامہ یونان ) ” مصر کے لیے (اردو) شامل ہیں۔ جرمنی ، جاپان اور ایران کے سفر نامے جو کہ رسائل میں شائع ہو چکے ہیں کو بھی بے حد پذیرائی ملی۔ ڈاکٹر زاہد منیر عامر اب بطور ڈائریکٹر ادارہ زبان و ادبیات اردو ، پنجاب یونیورسٹی لاہور میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ دعا ہے کہ وہ یوں ہی تشنگانِ علم و ادب کو اپنی علمیت سے سیراب کرتے اور علم کی شمعیں روشن کرتے رہیں۔