خوب تر کی تلاش میں سنین گزر چکے لیکن ہمیں سیاست میں، عدالت میں، صحافت میں، ثقافت میں ، مذہب میں حتیٰ کہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں خوب تر تو کجا ”خوب” بھی میسر نہ ہوا۔ اگر کچھ ملا تو جھوٹ، منافقت، تکذیب، تکفیر، کرپشن کے مگرمچھ اور سنڈاس کے لوٹے۔ جسے رَہبر سمجھاوہ رَہزن نکلا، جسے عالم سمجھا وہ غافل نکلا۔ جسے عادل سمجھا وہ قاتل نکلا (بھٹو کا عدالتی قتل گواہ)، جسے چیف سمجھا وہ ”چیپ” نکلا۔ یہا ںسلطانی بھی عیاری، درویشی بھی عیاری۔ ہر دَور میں (خواہ وہ جمہوریت کا ہو یا آمریت کا) صحنِ چمن میں آمدِ بہار کی نوید سنائی گئی لیکن مآل پھولوں کی بجائے کانٹے، صرف کانٹے۔ اب راندہ ودرماندہ قوم کی مایوسیوں کا یہ عالم کہ
کانٹوں سے دل لگائیں نہ ہم تو کیا کریں پھولوں کی آرزو میں بڑے زخم کھائے ہیں
تاریخ کے جھروکوں میںجھانکیں، آپ کو ”جمہورِوطن” بے جرم وخطاعفریت کے آہنی پنجوں میں جکڑے نظر آئیں گے۔ وہ غلام ابنِ غلام اپنی نسلیں برباد کرکے اہلِ زَر کے محل تعمیر کرتے رہے۔ اہلِ ثروت اطلس وکمخواب میں لپٹے، اِن کے اجسام پر چیتھڑے۔ وہ شاہ ابنِ شاہ، یہ کمی کمین مزارے اور اچھوت۔ حقیقت مگر یہی کہ انہوں نے کوشش تو کی، ہر نعرے پر لبّیک کہا اور ہر بڑھک کو حقیقت جانا۔ بھٹو نے روٹی، کپڑے اور مکان کا نعرہ لگایا تو اِن کے دیدہ ودِل فرشِ راہ ہوئے۔ بھٹو کو پھانسی ہوئی تو عشروں تک اُس کی قبر کو ووٹ دیتے رہے۔ وہ ”ہر گھر سے بھٹو نکلے گا” جیسے نعرے لگاتے رہے لیکن بھٹو نکلا، نہ روٹی کپڑا اور مکان ملاالبتہ ہوسِ زَر کے پجاریوں کی چاندی ہوگئی، لکھ پتی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو دھو کے کھرب پتی بن گئے ۔
جنرل ضیاء الحق کا دَور آیا، قوم کی اُمنگیں ایک دفعہ پھر جوان ہوئیں، اُمیدوں پر ہریالی پھِری کہ اُس نے قائد کے فرمان کے عین مطابق پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کا اعلان کیا۔ اِسی بنا پرابتدا میںمذہبی جماعتوں نے اُس کا بھرپور ساتھ دیالیکن ضیاء الحق تو اسلام کی آڑ میں اپنی حکومت کو دوام بخشنے کے چکر تگ میں تھے۔ اِسی لیے اُنہوں نے کہا کہ صدر، قوم کا باپ ہوتا ہے، اُسے بے اختیار نہیں ہونا چاہیے، آرٹیکل 58-2B اُنہی کا تحفہ ہے جس کے تحت کسی بھی جمہوری حکومت کو کان سے پکڑ کر گھر بھیجا جا سکتا تھا۔ امیرِجماعت اسلامی میاں طفیل محمد جب ضیاء کے منصوبوں سے آگاہ ہوئے تو اُنہوں نے فرمایا کہ اپنی تمامتر نمازوں کے باوجود یہ حکومت جہنمی ہے۔ ضیاء کا ریفرنڈم بھی بڑی ”خاصے کی” شے تھاجس میںیہ شرط رکھی” اگر آپ ملک میں اسلامی نظام چاہتے ہیںتو ریفرنڈم کے حق میں ووٹ دیں۔ جس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ نے مجھے پانچ سال کے لیے صدر منتخب کر لیا”۔ ارکانِ اسلام تو پانچ ہیں لیکن ضیاء الحق نے اپنے آپ کو چھٹا رُکن بنا لیا۔ اب کوئی بھی مسلمان ضیاء مخالف ووٹ کیسے دے سکتا تھا، اِس لیے بہت سے لوگ گھروں میں بیٹھے رہے اور ضیاء الحق 99.99 فیصد ووٹ لے کر صدرِ پاکستان منتخب ہو گئے۔
جنرل ضیاء الحق طیارہ حادثے میں جاں بحق ہوئے تو ایک دفعہ پھر جمہوری دَورکی اُمید پیدا ہوئی۔ 1988-99 ء جمہوری دَور تھا جس میں چار بار عام انتخابات ہوئے لیکن چاروں بار کسی ایک وزیرِاعظم کو بھی پانچ سالہ مدت پوری نہ کرنے دی گئی۔ پہلی بار صدر غلام اسحاق خاں نے منتخب وزیرِاعظم بینظیربھٹو پر 58-2B کی تلوار چلائی اور دوسری بار اِسی تلوار سے میاں نوازشریف کی وزارتِ عظمیٰ کی گردن کَٹی۔ تیسری بار ایک دفعہ پھر محترمہ بینظیر وزیرِاعظم بنیں جنہوں نے اپنے ہی دیرینہ رُکن فاروق لغاری کو صدر منتخب کروایا لیکن ”گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے”۔ فاروق لغاری نے ہی 58-2B کے ذریعے بینظیربھٹو کو گھر بھیج دیاجس کے بعد میاں نوازشریف نے ایک دفعہ پھر دوتہائی اکثریت کے ساتھ وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا تو اُس وقت تک 18ویں ترمیم کے تحت صدرِمملکت سے 58-2B کا اختیار چھِن چکا تھا لیکن اِس دفعہ آمریت نے میاں صاحب کو نہ صرف چلتا کیا بلکہ اُنہیں جَلاوطنی کا دُکھ بھی جھیلنا پڑا۔
مشرفی آمریت لگ بھگ 9 سال تک مسلط رہی۔ اِس ”دَورِبے غیرت” میں جو کچھ ہوا، وہ یقیناََ تاریخِ پاکستان کا سیاہ باب ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کی ایک دھمکی پر پرویزمشرف جیسا ”جعلی” کمانڈو ”لَم لیٹ” ہوگیا اور امریکہ کو وہ کچھ بھی دے دیا جس کا تقاضہ بھی نہیں ہوا تھا۔ پرویزمشرف ہی کے دَور میں امریکہ کو ہوائی اڈے دیئے گئے، ہزاروں کی تعداد میں امریکی ویزے جاری کیے گئے اور نیٹوافواج کے لیے سرحدیں کھول دی گئیں۔ نیٹوافواج کی رَسد پاکستان ہی کے راستے افغانستان پہنچائی جاتی رہی۔ یہ وہی شخص تھا جس نے امریکہ مخالف پاکستانیوں کو گرفتار کرکے امریکہ کے ہاتھ بیچا۔ نواب اکبر بگتی کا قتل، سانحہ لال مسجد اور سانحہ 12 مئی کے خون سے اُس کے ہاتھ ابھی تک رنگے ہوئے ہیں لیکن پھر بھی وہ باہر بیٹھا ڈانس کر رہا ہے اورکسی کی مجال نہیں جو اُسے نشانِ عبرت بنا سکے۔
اُس کے خلاف بینظیر بھٹو کے قتل کی ایف آئی آر درج ہوچکی لیکن سب عبث، سب بیکار۔ پیپلزپارٹی نے اپنے دَورِ حکومت (2008-13ئ) میں تو اُس پر ہاتھ نہیں ڈالا لیکن جب نوازلیگ کی حکومت آئی تو آصف زرداری نے میاں نوازشریف کو مخاطب کرکے کہا ”اب بِلّا ہاتھ آگیا ہے، اِسے جانے نہ دینا” لیکن مقتدر قوتیں بھلا کیوںاپنے سابق چیف آف آرمی سٹاف پر ہاتھ ڈالنے دیتیں۔ وہ اب باہر بیٹھاجمہوریت کا مذاق اُڑ ا رہا ہے۔ 2008-18ء تک پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار دو جمہوری حکومتوں نے اپنی پانچ، پانچ سالہ مدت مکمل کی لیکن وزرائے اعظم پھر بھی چار(دو وزرائے اعظم عصائے عدل کا شکار ہوئے)۔اِس دَس سالہ جمہوری دَور میں بھی قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ اگر ترقی کے کچھ آثار نظر آئے تو صرف مسلم لیگ نواز کے دَور میں جو اقتصادی راہداری جیسا عظیم منصوبہ لے کر آئی اور لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کیالیکن اجر اِس کا یہ ملا کہ عدلیہ نے ایک اقامے کی بنیاد پر وزارتِ عظمیٰ چھینی اوراحتساب عدالت نے جیل بھیج دیا۔ وہ یقیناََ کوٹ لکھپت جیل میں بیٹھے سوچ رہے ہوںگے کہ آخر اُن کا قصور کیا تھا۔
پاکستان کی تاریخِ عدل بھی ہرگز لائقِ تحسین نہیں کہ جسٹس منیر کا نظریۂ ضرورت آج بھی جاری وساری ہے۔ لگ بھگ چھتیس سالہ دَورِآمریت کو اِسی نظریۂ ضرورت نے حقِ حکمرانی بخشا اور جج پی سی او پر حلف اٹھاتے رہے۔ اِس کے باوجود بھی جب ایک چیف جسٹس آمر کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہوگیا تو پوری قوم پکار اُٹھی ”چیف تیرے جاںنثار، بے شمار بے شمار”۔ آمر پرویزمشرف کے اصل زوال کا سبب عدلیہ بحالی تحریک ہی تھی جس میں پوری قوم سیسہ پلائی دیوار بن کر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی پشت پر کھڑی ہوگئی۔ پرویزمشرف کو ایوانِ صدر چھوڑنا پڑا، آصف زرداری ایوانِ صدر کے نئے مکین بنے۔ اُنہوں نے بھی چیف جسٹس کی بحالی کی بجائے لیت لعل سے کام لینا شروع کیا لیکن پیپلزپارٹی کو بہرحال عدلیہ بحال کرنی پڑی۔ وقت کچھ آگے سِرکا اور میاں ثاقب نثار چیف جسٹس آف پاکستان بن کر سامنے آئے۔ اُن کاپورا دَور ہنگامہ خیز تھا اور سپریم کورٹ کے کئی فیصلے متنازع۔ وہ 1997ء میں نوازشریف کے دَورِحکومت میں پہلے وفاقی سیکرٹری قانون تعینات ہوئے اور پھر 1998ء میں ہائیکورٹ کے جج بنے۔ بابارحمت نے دِن رات ایک کرکے بہت کام نپٹائے لیکن اُن کی زبان زیادہ اور فیصلے کم بولتے رہے جبکہ ہم نے تو یہی سُن رکھا تھا کہ ججز کی زبان نہیں، فیصلے بولتے ہیں۔ اب چونکہ عدل کا یہ باب بند ہوا اِس لیے ہم فیصلہ تاریخِ عدل پر چھوڑتے ہیں کہ وہ میاں ثاقب نثار کو کیا مقام دیتی ہے۔ بابارحمت کی دہشت ہی اتنی تھی کہ سبھی لرزہ بَراندام۔ اب وہ گھر میں بیٹھے سوچ رہے ہوںگے کہ
ہم سے چھوٹا قمار خانۂ عشق واں جو جائیں گرہ میں مال کہاں