زندگی کی قوت

Allah

Allah

گھر کے آنگن میں ایک بیل اُگی ہوئی تھی مکان کی مرمت ہوئی تو وہ نیچے دب گئی، آنگن کی صفائی کراتے ہوئے مالک مکان نے بیل کو کٹوا دیا، دور تک کھود کر اس کی جڑیں بھی نکلوا دی گئیں۔ اس کے بعد پورے صحن کو اینٹوں سے پختہ کر دیا۔ کچھ عرصہ بعد بیل کی سابقہ جگہ کے پاس ایک نیا واقعہ رونما ہوا، پختہ اینٹیں ایک مقام پر ابھر آئیں۔

ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کسی نے دھکا دے کر انھیں اُٹھادیا ہوں، کسی نے کہا کہ یہ چوہوں کی کاروائی ہے کسی نے کوئی اور قیاس کرنے کی کوشش کی آخر کار اینٹیں ہٹائی گئیں تو معلوم ہوا کہ بیل کا پودا اس کے نیچے مڑی ہوئی شکل میں موجود ہے۔ بیل کی کچھ جڑیں زمین کے نیچے رہ گئیں تھیں، وہ بڑھ کر سیمنٹ تک پہنچیں اور اوپر آنے کے لئے زور لگا رہی تھیں۔

یہ نازک پتیاں جن کو مسلا جائے تو تو وہ آٹے کی طرح پس اٹھیں ان کے اندر اتنی طاقت ہے کہ اینٹ کے فرش کو توڑر کر اوپر آ جائیں؟ مالک مکان نے کہا ” میں ان کی راہ میں حائل نہیں ہونا چاہتا، اگر یہ بیل مجھ سے دوبارہ زندگی کا حق مانگ رہی ہے تو میں اس کو زندگی کا حق دوں گا۔

” جناب ! انھوں نے چند اینٹیں نکلوا کر اس کے لئے جگہ بنا دی۔ ایک سال بعد ٹھیک اسی جگہ پر کئی فٹ اونچی بیل کھڑی ہوئی تھی جہاں اس کو ختم کر کے اس کے اوپر پختہ اینٹیں جوڑ دی گئیں تھیں درخت کے ننھے پودے میں اتنا زور ہے کہ وہ پتھر کے فرش کو دھکیل کر باہر آجاتا ہے، یہ طاقت اس کے اندر کہاں سے آئی یہ عالم فطرت کا وہ پر اسرار مظہر ہے جس کو زندگی کہا جاتا ہے ایسی قوت جو دنیا میں اپنا حق وصول کر کے رہتی ہے۔

جب زندگی کی جڑیں تک کھودی جاتی ہیں اس وقت بھی وہ کہیں نہ کہیں اپنا وجود رکھتی ہے اور موقع پاتے ہی دوبارہ ظاہر ہو جاتی ہے اس لئے زندگی کے آخری دم تک انسان کو اپنی کوششیں جاری رکھنی چاہیں کیونکہ محنت اور کوشش کے بل بوتے پر انسان جتنی بار بھی گر جائے دوبارہ کھڑا ہوسکتا ہے، کلاس نہم میں ایک مشہور کہانی تھی جس کا نام اس وقتذہن میں نہیں ہے وہ بھی انسان کی ہمت اور کوشش سے جڑی تھی کس طرح بادشاہ نے ایک چیونٹی سے سبق سیکھا کہ وہ دشمنوں سے شکست کھا کر ایک غار میں چھپ گیا، زندگی سے مایوس ہو چلا تھا مگر اچانک اُس کی نظر ایک چیونٹی پر پڑی جو ایک چاول کا دانہ اٹھا کر بلندی کی طرف چڑھتی مگر پھر گرجاتی بادشاہ یہ منظر دیکھتا رہا چیونٹی جتنی بار گرتی پھر دوبارہ چڑھائی کی طرف گامزن ہو جاتی کوئی کم و بیش چیونٹی اپنی منزل تک پہنچتے پہنچے نو بار نیچے گری۔

بالآخر منزل مقصود تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئی۔ چیونٹی کی یہ کوشش اور محنت دیکھ کر بادشاہ کو ہمت بندھی کہ ایک ننھی سی مخلوق بار بار محنت کر کے اپنی منزل پا سکتی ہے تو اللہ نے تو مجھے اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ بادشاہ کہ اندر ایک نئی قوت نے جنم لیا اور پھر تییں دوبارہ کوششیں شروع کی اور دشمنوں کو شکست فاش دیکر اپنا تخت و تاج دوبارہ واپس حاصل کر لیا۔

Human labor

Human labor

ویسے بھی اللہ تعالیٰ کسی بھی انسان کی محنت اور کوششیں رائیگاں نہیں جانے دیتا بس ہم لوگوں کے اندر ہی صبر کا مادہ کم ہے جس کی وجہ سے ہم بہت جلد مایوس ہو جاتے ہیں۔ درحقیقت زندگی شروع ہی وہاں سے ہوتی ہے جہاں سے انسان گرتا ہے کیونکہ اس سے انسان کو بہت کچھ سیکھنے سوچنے اور سمجھنے کو ملتا ہے، پھر نئے جوش اور پہلے سے بہتر حکمت عملی سے انسان دوبارہ اُسی جگہ یا اُس سے بھی بہتر مقام حاصل کر لیتا ہے مگر ان سب کیلئے محنت لگن کیساتھ ساتھ کچھ کر گزرنے کا جذبہ ہونا ضروری ہے اور کسی بھی صورت اپنے اوپر ناامیدی کا غلبہ نا آنے دے۔

تاریخ ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے جن کو اُن کی ابتدا میں کہیں نکمے طالب علم کا خطاب ملا کہیں سست انسان اور کہیں ناکارہ آدمی کے القابات سے نواز ا گیا مگر پھر انہ انہی لوگوں نے وہ کارہائے نامہ انجام دئیے کہ تاریخ خود ان کی محتاج ہوگئی۔ ان میں بل گیٹس اور سٹیو جابز کے نام سے تو نیا کا بچہ بچہ واقف ہے جن کو زندگی کی ابتدا میں ہر جگہ مایوسی اور ناکامی کا سامنا رہا مگر ان لوگوں نے ہمت نہیں ہاری اور آج تمام جدید ترین ایجادات کے بانیوں کی فہرست ان صاحبان کے نام کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوسکتی بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ دنیا کو ٹیکنالوجی کی جدت سے روشناس کرانے میں ان دونوں کا نام سرفہرست ہے۔

بجلی کے بلب اور اُس کے بعد بہت سی ایجادات کے بانی تھامسن ایڈیسن نے زندگی کے بارے میں بہت مختصر لیکن نہایت خوبصورت بات کہی کہ ۔!”زندگانی میں ناکام ہونے والے اکثر لوگ وہ ہیں جنہوں نے اپنی کوششیں اس وقت ترک کیں جب انہیں ادراک ہی نہیں تھا کہ وہ کامیابی کے کس قدر نزدیک جا پہنچے ہیں۔

قصہ مختصر کہ انسان کو گرے بغیر منزل نہیں ملتی بہت کم ایسے مقدر کے سکندر ہیں جنہیں زندگی میں بہت کم تکلیفیں اُٹھانا پڑی یا سرے سے محنت ہی نہ کرنا پڑی اور سب کچھ پلیٹ میں سجا سجایا مل گیا، مگر ان لوگوں کا تاریخ میں کہیں نام نہیں ملتا تاریخ ہمیشہ اُن لوگوں کو یاد رکھتی ہے جن لوگوں نے اپنے بل بوتے پر مقام بنایا ہوتا ہے۔ آج کل ہم لوگوں نے محنت سے بچنے کیلئے ایک آسان طریقہ اپنا لیا ہے کہ اگر کوئی شخص ارب پتی ہے بہت بڑا بنگلہ اور گاڑی کا مالک ہے تو ہم فوراً سے وہی گھسا پٹا جملہ دہرا دیتے ہیں کہ ”حرام کی کمائی ہے ”اور حسد یا رقابت میں جلتے رہتے ہیں اگر ہم اس جملے کو دہرانے کی بجائے ان لوگوں کی کی ترقی کے پیچھے چھپی محنت کو دیکھیں تو کیا پتا ہمارے لئے بھی یہ سب راستے انتظار کر رہے ہوں مگر اس کیلئے ہمیں حسد جیسی بیماری سے باز آنا ہوگا۔ اپنے راستے خود تلاش کرنا ہونگے منزل کے دشورار گزار راستوں پر چلنا پڑے گا راستے کی رکاوٹوں کو اپنے بل بوتے پر آگے سے اُٹھانا ہوگا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ کامیابی حاصل نہ ہو۔

اوباما سیاہ فام ہو کر تمام نسلی تعصب امتیاز کو خاطر میں نہ لاکر 47 سال کی عمر میں امریکہ کا صدر بن سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں آگے بڑھ سکتے؟۔ امریکی شہری وارن بفٹ چھوٹی چھوٹی دکانوں پر کوکا کولا سپلائی کرکے امیر کبیر شخص بن سکتا ہے تو یقیناً ہم بھی بن سکتے ہیں۔ لاتعداد مثالیں بھری پڑی ہیں صفحات کے صفحات بھر جائیں گے مگر ایسے کامیاب لوگوں کے نام ختم نہیں ہونگے۔ قارئین کرام پس ہمیں ناامیدی جیسی مو ذی لعنت سینکل کر زندگی کی اصل قوت کو سمجھنا ہوگا تو کجا مجال کہ ترقی اور کامیابی ہمارے قدموں میں نہ بچھتی چلی جائے۔

Amjad Qureshi

Amjad Qureshi

تحریر : امجد قریشی