تحریر : امتیاز شاکر زمین سے نکل کسی دوسرے، تیسرے سیارے پر زندگی بسر کرنے، وہاں کے سکون و شانتی کو برباد کرنے کا خواہش مند انسان گزشتہ کئی دہائیوں سے مختلف سیاروں کی خاک چھان رہاہے سیارہ زمین پرانسان چند گز زمین کی ملکیت حاصل کرنے کی خاطر ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے ہیں ۔بھائی ،بھائی کو اور باپ ،بیٹا ایک دوسرے کو قتل کررہے ہیں ۔ ریاستی و غیر رسیاستی عناصر اقتدار کی جنگ لڑرہیں ۔کوئی حکومتی رٹ قائم کرنے اور کوئی حکومت حاصل کرنے کیلئے معصوم ،بے گناہ انسانوں کا خون پانی کی طرح بہا رہا ہے۔ہر کوئی ترقی و خوشحالی کا خواں ہے جبکہ انسانیت لگاتار خسارے میں ہے۔نجانے انسان کویہ فکر کیوں لاحق ہے کہ آبادی تیزی کے ساتھ بڑے گی تو زمین تنگ پڑھ جائے گی؟انسان نہ تو اپنی زندگی پر قدرت رکھتا ہے اور نہ ہی دوسروں کی پیدائش پر۔
زمین پر زندگی موجود ہے تو کیا یہ انسان کی پیداکردہ ہے؟کیا ہوا انسان کی مرضی سے چلتی ہے؟کیا بادل انسان کے حکم پر بارش برساتے ہیں؟کیا سمندر انسانی خواہش پر تھمے ہوئے ہیں؟کیا پہاڑوں کو انسان نے بلند کیاہے؟انسان کی حیثیت کیاہے؟حقیقت تو یہ ہے کہ انسان کی حیثیت کچھ بھی نہیں ۔انسان ہرلمحہ اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے ۔تلاش ،سرچ انسانی فطرت میں شامل ہے پر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں لینا چاہئے کہ ہم نئے نئے خیالات اورایجادات پر تو توجہ دیں پرموجودہ زندگی کو بہتر بنانے پر بالکل بھی دھیان نہ دیں۔فرض کریں اگر کسی دوسرے سیارے پر زندگی کے آثارمل جاتے ہیں تو کیا ہوگا؟وہی ہوگا جو زمین پر ہورہا ہے ۔طاقت ور کمزور کے حقوق پرڈاکہ ڈال کر محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں زمین سے کوچ کرجائے گا۔دوسرے لفظوں میںیوں کہا جاسکتاہے کہ جو لوگ زمین پر اپنے آپ کو غیر محفوظ تصورکرتے ہیں۔جن کے گرددرجنوں سیکورٹی گارڈ موجود رہتے ہیں وہ فوری طور پر ایک نئے سیارے پر رہائش پزیر ہوکر اپنی زندگی کو محفوظ بنانے کی کوشش کریں گے۔
ماضی میں بھی کئی مرتبہ سننے میں آیا کہ سائنسدان مریخ یا چاند پر زندگی کی آثار تلاشنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ایک رپورٹ کے مطابق ناسا کے تحقیقاتی روبوٹ کی جانب سے موصول ہونے والی نئی معلومات میں انکشاف ہوا ہے کہ سیارہ مریخ پرزندگی کے آثارموجودہیں۔ناسا کی جانب سے امریکی سائنسی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق میں دعویٰ کیا گیاہے کہ سرخ سیارے مریخ پر انسانی زندگی کے اثار کی موجودگی سامنے آئی ہے۔ناسا کے مطابق زندہ چیزں میں پائے جانے والے اہم عنصر میتھین کے ذرات مریخ کی فضا میںپائے گئے ہیں ۔ناسا کے سائنسدان جون کروٹ زنگر کا کہنا ہے کہ ابھی اسحوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔اُس کا کہنا ہے کہ مریخ پر زندگی کے متعلق ملنے والی معلومات انتہائی اہم ہیں۔کیونکہ عنصرمیتھین کو سائنسدان گزشتہ کئی دہائیوں سے تلاش کررہے تھے لہٰذااب یہ بات انتہائی اعتماد کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ مریخ کی فضامیں مختلف ادوار میں میتھین گیس موجود رہی ہے اور ساتھ ہی اس پر موجود چٹانوں میں بھی کئی جگہ آرگنک موجود ہے۔جون کروٹ زنگرکا کہنا ہے کہ تحقیقاتی روبوٹ کی جانب سے موصول ہونے والے میٹریل کے کیمیکل تجزے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ نہ صرف میتھین بلکہ آرگنک مالیکیول بھی مریخ کی چٹانوں میںموجود ہے۔
Scientists
سائنسدانوں کا گزشتہ کئی دہائیوں سے ماننا ہے کہ لاکھوں سال پہلے مریخ کی چٹانیں گرم اور گیلی تھیںجو بعد میں موسمیاتی تبدیلوں کی وجہ سے سخت ہوکرجم گئیں۔قارئین ایک طرف تو انسان زندگی کے آثار تلاش کررہا ہے اور دوسری جانب زندگی کو ختم کرنے کوشش۔بھارت کے شہر دہلی سے شائع ہونے والے ایک اخبار میںاس تحقیقاتی رپورٹ کے ساتھ ایک خبر اور بھی شائع ہوئی جس میں لکھاتھا کہ یارکشائر کے علاقے رچمنڈ سے گزشتہ روز سہ پہر تین بجے ایک شہری نے پولیس کو فون کرکے بتایا کہ کچرے کی ٹوکری میں نومولود بچی کی نعش پڑی ہے۔ سائنسدانوں کی رپورٹ کے مطابق مریخ پر لاکھوں سال قبل زندگی موجود تھی جو موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ناپید ہوگئی ۔کیا آپ کو نہیں لگتا کہ مریخ سے زندگی کا خاتمہ موسموں نے نہیں کیابلکہ وہاں بسنے والے انسانوں نے بے گنا ،معصوم نامولود وں کو کچرے کی ٹوکری میںپھینک کرکیا ہوگا؟مریخ کی زندگی کیسے برباد ہوئی یہ تو مجھے معلوم نہیں پر زمین پر لگاتار پھیلتی تباہی و بربادی دیکھ کر لگتا ہے کہ انسان زمین سے زندگی کے آثار ختم کرکے دم لے گا۔
زمین ہویا مریخ پوری کائنات اللہ تعالیٰ کی ہے اور وہ اپنی مخلوق پر ظلم پسند نہیں کرتا۔کچرے کی ٹوکری ہو،پشاور کا سکول ہو یا دہشتگردی کیخلاف جنگ میں بے گناہ معصوموں کو بے دردری کے ساتھ قتل کیا جائے ۔کوئی مسلم ہویا غیر مسلم سب اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں ۔کوئی اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر قتل کرے یا کسی کواللہ اکبر کا نعرہ لگانے پر قتل کردیا جائے کسی بھی حالت میں بے گناہوں کا قتل انتہائی ظلم ہے۔اپنے ذاتی مفادات کو مذہب یا فرقہ کا لباس پہنا کر کسی ملک یا قبیلے کیخلاف جنگ کا بہانہ بنانااور پھربے گنا،معصوم بچوں،عورتوں اور بزرگوں جو جنگ کی طاقت نہیں رکھتے کو قتل کرنا کسی بھی انسانی معاشرے کی بدترین مثال ہے ۔مریخ پر زندگی کے آثارتلاش کرنے والا انسان زمین پر بسنے والی زندگی کوغنیمت جانے تو یقین کریں بہت کچھ ہے اس زمین پر زندہ رہنے کیلئے ۔سائنسدان مریخ پر زندگی کے آثار تلاش کررہے ہیں جبکہ راقم کا ایمان ہے کہ کائنات کے ذرے ذرے میں جان ہے اور ہرذرے میں ان گنت جہان ہیں۔
تلاش انسانی فطرت میں شامل ہے اس لئے انسان ہر دورمیں نئے جہان تلاش کرتا آرہا ہے۔اللہ تعالیٰ رحمت فرمائے اور آنے والے نئے سال میں ہم پاکستانی بھی اپنے لئے ایک نیا پُرامن جہان تلاشنے میں کامیاب ہوجائیں ۔قارئین گزشتہ کئی سالوں کی طرح سال2014ء بھی دہشتگردی کی نذر ہوگیا۔چاروں طرف خون میں لپٹے انسانی عضاء اوربارود کی بدبو۔سانحات،دہشت و وحشت ،بھوک ،افلاس،ناانصافی ،بدامنی،سسکیاں اور آہیں دامن میں سمیٹے سال2014ء اختتام پزیر ہواچاہتاہے۔ اللہ کرے آنے ولانیا سال زمین اور ساری کائنات پر بسنے والی مخلوق کیلئے خیروآفیت کا پیغام لائے۔مریخ پر زندگی تلاشنے والوں کو بھی کامیابی نصیب ہو اورزمین پر سسکتی زندگی کو بھی سکون ملے۔ اورنئے سال میں زندگی کے آثار قائم رہیں(آمین)۔