تحریر: فوزیہ عفت اماں اور ابا نئے لباس میں ملبوس تھے اماں نے میرے گھر داخل ہوتے ہی بلائیں لیں اور مٹھائی کے ڈبے سے قلا قند نکال کر میرے منہ میں ڈال دی۔ابا کے چہرے پر بھی مسکراہٹ تھی ۔قلاقند کا ٹکڑا میرے حلق میں اٹک کر رہ گیا مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا معجزہ ہو گیا اماں نے میری ہونق صورت دیکھی تو ہنس دیں اور بولیں سعد جا نہا لے اور نئے کپڑے پہن لے شام میں تیری بہنوں کا نکاح ہے تیار ہو جا ،میں نہ سمجھ آنے والی کیفیت سے دوچار تھا ۔شام میں چند مہمان گھر میں آئے امں اور ابا ان کے آگے بچھے جا رہے تھے وہ بہت سی مٹھائی اور تحفے لے کر آئے تھے میر صاحب کے سالے اور بھائی سے میری دونوں بہنوں کا نکاح ہو گیا مگر مجھے اپنے دونوں خرانٹ اور دگنی عمر کے بہنوئی ایک آنکھ نہ بھائے۔
نکاح کے بعد میر صاحب جاتے ہوئے ابا سے گلے ملے اور دھیرے سے بولے بس اب تم فکر نہ کرو قیوم میاں جو میں کیوں کرتے جائو پھر د یکھنا کیسے تمھارے دن پھرتے ہیں۔ابا گھبرائے اور ملتجی لہجے سے بولے پھر بھی میر صاحب دھیان رکھیے گا ،میر صاحب قہقہہ لگا کر ہنسے اور بولے ارے تم فکر ہی نہ کرو سب مجھ پہ چھوڑ دو اب ہم رشتہ دار ہیں۔اگلے چند دن ایسے گذرے کہ کایا ہی پلٹ گئی ۔گھر کی مرمت رنگ و روغن کے ساتھ ساتھ سازوسامان بھی بدل گیا جن چیزوں کے ھم خواب دیکھا کرتے تھے وہ اب تعبیر بن کر سامنے آگئے غربت میں اگر کسی کے گھر سے آسودگی کے پکوانوں کی خشبو آنے لگے تو آس پڑوس کے لوگ چہ میگوئیاں کرنے لگتے ہیں سو جلد ہی یہ تبدیلی محلے والوں کے لیے موضوعِ گفتگو بن گئی باتیں زبان سے نکلیں اور کوٹھوں چڑھیں کے مصداق سب کی زبان پہ یہی رہنے لگا کہ قیوم رشوت لینے لگ گیا ہے تبھی تو اس کی کایا پلٹ گئی۔
ایک دن کلاس میں بیٹھے ہوئے ماسٹر صاحب نے مجھے بلایا اور رازدارانہ انداز میں بولے بیٹا سعد ذرا اپنے ابو سے میری سفارش تو کرو میرے ایک پلاٹ کا قبضہ کئی سالوں سے رکا ہوا ہے فائل آگے بڑھتی ہی نہیں ،میں نے جی کہہ کے سر جھکا لیا اور میری نظر ہاتھ میں پکڑی اسلامیات کی کتاب کی حدیث پہ پڑی :رشوت لینے اور دینے والے دونوں جہنمی ہیں ۔ایک لمحے کے لیے میرا دل کانپا اور مجھے بہت تذلیل محسوس ہوئی شاید میرے اندر کے ضمیر کی رگوں گردش کرتے خون میں ابھی رزقِ حلال کی کوئی رمق باقی تھی اس روز میں واپس آ کر خوب رویا ماں کے پوچھنے پہ ان کو بتا یا کہ اب سکول کے لڑکے مجھے طعنے دیتے ہیں ،ماں خاموشی سے میرے بالوں میں ہاتھ پھیرتی رہی میں نجانے کب نیند کی آغوش میں جا سویا۔
Tear
انسان بھی بہت عجیب خمیر سے بنا ہے احساس کے باوجود آنسو بہا کر پھر اسی گورکھ دھندے میں لگ جاتا ہے گو یا آنسو اس کی تلافی ہوں ۔اگلے ماہ ایک ہوٹل میں میری دونوں بہنوں کی رخصتی ہو گئی میری آنکھوں نے پہلی بار ان لوگوں کو دیکھا جو کسی طرح بھی متوسط طبقے کے نہ تھے میکپ ذدہ خرانٹ چہروں واکی عورتیں جن کے لباس ان کے جسموں کو چھپانے کے بجائے نمایاں کرنے کا کام دے رہے تھے ماں بہت خوب صورت تھی اور ان سے الگ دکھائی دے رہی تھی میر صاحب اور ان کی بیگم نے ان سب سے ہمارا تعارف اپنے رشتہ داروں کی حیثیت سے کروایا۔قصہ کوتاہ بہنیں رخصت ہو کر اپنے مجازی خدائوں کے ساتھ اپنی محل نما کوٹھیوں میں سدھاریں ۔چند دن بعد ابا نے بتایا کہ ہم اپنے نئے گھر میں شفٹ ہو رہے ہیں کیونکہ یہ محلہ ہمارے اسٹیٹس کے مطابق نہیں رہا۔۔گلبرگ میں دو کنال کی خوب صورت کو ٹھی جہاں دنیا کی ہر آسائش موجود تھی۔
اماں خوشی خوشی گھر کا جائزہ لے رہی تھیں جبکہ ابا نوکروں کا انٹرویو لے رہے تھے اور ان پر اپنی فرضی جدی پشتی امارت کا رعب جھاڑ رہے تھے چھوٹا عدیل صوفے پہ بیٹھا اپنے نئے کھلونوں میں محو تھامیں اپنے مخصوص کردہ کمرے میں آگیا ،صاف ستھرا ڈبل بیڈ ،سرہانے ایک رائٹنگ ٹیبل،اٹیچ باتھ الماری ۔کھڑکی کھولی تو پھولوں کی خوشگوار مہک ناک سے ٹکرائی میں نے گہری سانس لی ،آسمان پہ اڑتے دو کوے نجانے کہاں جا رہے تھے یا وہ بھی میری بے معانی سوچوں کی طرح دربدر تھے جنہیں منزل نہ مل رہی ہو ۔اگلے چند دن بہت مصروف بیتے نیا سکول،جہاں سب برگر فیمیلی کے مغرور اور بگڑے بچے تھے ،پرانا محلہ خواب ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اماں کہاں ہو آپ دیکھو میری فرسٹ پوزیشن آئی ہے ۔میں اماں کی تلاش میں کمروں میں جھانک رہا تھا اماں کپڑوں کی الماری میں کچھ ڈھونڈ رہی تھیں انہوں نے پلٹ کر مجھے دیکھا اور میرا ماتھا چوم لیا ،سب بدل گیا تھا مگر ماں کے بوسے کا لمس آج بھی خالص ،مٹھاس اور خوشبو بھرا تھا رات ابا آئے وہ بھی بہت خوش ہوئے ابا کلرک سے ہیڈ کلرک ہو گئے تھے اچھی خوراک اور لباس نے ان کی شخصیت کو نکھار دیا تھا دھن نے گویا ہمارے گھر کی دہلیز تھام لی تھی لوگ ابا سے ملنے آتے ان کے ہاتھ میں بریف کیس ہوتے جب جاتے تو وہ خالی اور ابا کے ہاتھ بھرے ہوتے۔