تحریر: فوزیہ عفت آج صبح سے ہی موسم خوشگوار تھا ،مئی کے گرم دن میں ٹھنڈی ہوا نعمت سے کم نہ تھی بادلوں کی آنکھ مچولی بارش کی آمد کی خبر دے رہی تھی۔ ڈاکٹر ارشد کے کمرے میں سکوت طاری تھا کھلی کھڑکی سے آتے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کبھی ارتعاش پیدا کر دیتے۔ڈاکٹر ارشد نے چائے کا کپ سامنے کرسی پہ بیٹھے سعد حسن کی طرف بڑھایا لیں جناب میرا اردلی بہت مزے دار چائے بناتا ہے آپکو ضرور پسند آئے گی۔سعد نے خاموشی سے کپ لے کر لبوں سے لگا لیا ، جی بہت اچھی ہے۔مختصر جواب اور پھر طویل خاموشی،ڈاکٹر نے گھڑی دیکھی آیا کیوں نہیں ابھی تک؟ وہ بڑبڑایا۔ اتنے میں دروازہ کھلااور اردلی اجازت لے کر اندر داخل ہوا سر نعمت اللہ صاحب آئے ہیں ۔اوکے بلا لو اور ان کے لئے بلیک کافی بھی بنالائو،ڈاکٹر ارشد نے جواب دیا۔
کچھ لمحے بعد نعمت اللہ اندر داخل ہوا السلام علیکم ،سلام کی گرم جوشی اچھے موڈ کا پتہ دے رہی تھی۔و علیکم السلام بڑا انتظار کروایا بیٹھو تمھاری بلیک کافی بھی آتی ہوگی سعد صاحب کو ڈسچارج کر دیا گیا ہے اب تم جانو اور یہ میں نے تو اپنا فرض پورا کر دیا ڈاکٹر ارشد نے مسکراتے ہوئے کہا۔اردلی دروازہ ناک کر کے کافی لے آیا اورنعمت اللہ کوپیش کی نعمت اللہ نے کافی میز پر رکھی اور سعد کی طرف دیکھا ۔آج کے سعد اور دس دن پہلے کے سعد میں بہت فرق تھا مفلوک الحال شخص کی جگہ صاف ستھرا لباس پہنے سلیقے سے بال سنوارے داڑھی کے بال خوبصورتی سے ترشے ہوئے وہ بہت نفیس اور سلجھا ہوا دکھائی دے رھا تھا۔
Name
ان دس دنوں میں وہ محض اس کا نام ہی جان پائے تھے اس کے علاوہ وہ کسی سوال کا جواب نہ دیتا بس ہوں ہاں سے کام چلاتا۔ آج دونوں نے مل کر پلان کیا کہ اس قضیے کو آج نبٹا دیا جائے سو اس سلسلے میں وہ سعد کے سامنے موجود تھے ۔۔جی سعد صاحب کیا پروگرام ہے؟ نعمت اللہ نے کرسی گھسیٹ کر سعد کے سامنے کی اور مسکرا کر مخاطب ہوا۔ سعد نے اچٹتی ہوئی نظر دونوں پہ ڈالی ،آپ لوگ میرے بارے میں جاننا چاہتے ہیں ۔دونوں نے استفہامی انداز میں سر ہلایا۔ اوکے سنیں: میں ڈاکٹر سعد حسن ہوں میں نے فلاسفی میں پی۔ایچ۔ڈی کی ہے۔ مجھے زندگی اور فلسفے سے بچپن سے ہی دلچسپی تھی۔میرے والد ایک گورنمنٹ ادارے میں کلرک تھے ۔دو بہنیں مجھ سے بڑی اور ایک چھوتا بھائی تھا بچپن عمومی مڈل کلاس کے لوگوں کی طرح گزرا ،جہاں گھٹنے موڑ لو تب بھی چادر چھو ٹی پر جاتی ہے۔
تعلیم کے قابل ہوئے تب گورنمنٹ اسکول میں داخل کروا دیا گیا جہاں سارا دن استاد صاحب ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے یا تو اونگھتے رھتے یا پھربچوں سے گھر کا سودا سلف منگواتے اور کام کرواتے ۔میں ذرا خاموش طبع تھا مجھے حکم ملتا پہاڑوں کے رٹے لگوائوں یا ان کی ٹانگیں دبائوں۔تفریح میں پیپل کے سائے میں بیٹھ کر تختی پر پوچا لگاتا اور اسے دھوپ میں گھما گھما کر سکھاتا۔اسکول کے بعد گھر آتا تو اماں تپتی ٹین کی چھت والے باورچی خانے میں بیٹھی روٹیاں پکا رہی ہوتی اور ہم ان کے توے سے اترنے کاانتظار کیا کرتے تھے۔ہفتے میں ایک بار گوشت پکتا اور ایک ایک بوٹی اور لمبا شوربہ حصے میں آتا۔زندگی بس گذر رہی تھی پتہ نہیں ہم زندگی گذار رہے تھے یا زندگی ہمیں ۔وقت کا پہیہ گھومتا رہا اور میں آٹھویں جماعت میں آگیا میریٰ بہنیںجوان ہو چکی تھیں اماں ابا سر جو ڑے نجانے کیا کھسر پھسر کرتے رہتے پھر ایک دن میں اسکول سے واپس آیا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باقی آئندہ