تحریر : فوزیہ عفت نعمت اللہ ابھی حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھا کہ ڈاکٹر ارشد نے اس کا کندھا ہلایا ۔نعمت اللہ نے چونک کر خالی خالی نظروں سے اسے دیکھا ، ڈاکٹر ارشد نے مسکراتے ہوئے اس کا کندھا تھپتھپایا ہی از فائن نائو ڈونٹ وری اس کی حالت خطرے سے باہر ہے چاہو تو مل لو ۔نعمت اللہ نے گہری سانس لی اور کارڈ ارشد کی طرف بڑھایا، ڈاکٹر ارشد نے کارڈ پہ نظر ڈالی اس کے ہونٹ استفہامیہ انداز میں سکڑے، ہوننہ اوکے آئو میرے ساتھ۔دونوں وارڈ میں پہنچے اجنبی سفید چادر پر ایک دھبے کی مانند دکھائی دے رہا تھا اس کے پھٹے پرانے لباس کی جگہ اسپتال کے لباس نے لے لی تھی سر پہ بندھی پٹی اور ایک بازو اور ٹانگ پہ پلستر تھا۔وہ غنودگی میں تھا یکایک وہ بڑبڑایا رزقِ حرام ہے یہ دور لے جائو،سانپ ہے ڈس لے گا۔
نعمت اللہ اور ڈاکٹر ارشد نے اس کی نیم غنودہ آواز سنی اور ایک دوسرے کی طرف دیکھا اسے کب تک ہوش آئے گا ؟اس نے قریبی کرسی پہ بیٹھتے ہوئے پوچھا ،فی الحال دوائیوں کے زیرِاثر ہے اسے آرام کی شدید ضرورت ہے تم گھر جائو میری ڈیوٹی شام تک ہے اور خدارا اپنی اس سنجیدہ سی شکل میں کوئی مسکراہٹ کی رمق جگائو، ٹھیک ہے اب یہ۔اماں جی کا دو مرتبہ فون آچکا ہے تمھارے لیے اپنا فون بھی آن کرو،ڈاکٹر ارشد نے نعمت اللہ کی اچھی خاصی کلاس لے لی۔آآہم اوکے میں چلتا ہوں شام کو آئوں گا نعمت اللہ نے الوداعی نظر اجنبی پر ڈالی اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر نکل گیا ۔۔۔۔
پرندوں کی واپسی کا سفر شروع ہو چکا تھا سورج بھی مغرب کی جانب اپنے سفر کے آخری لمحات طے کر رہا تھا ۔وارڈ میں نیم خاموشی تھی اجنبی نے دھیرے دھیرے آنکھیں کھولیں،اس نے مندی مندی آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھا سفید کمرے کا منظر جہاں ہر شے سفیدی میں لپٹی دکھائی دیتی تھی۔سفید دیواریں،سفید بستر، سفید لباس میں ملبوس نرس جو کونے والے مریض کو انجکشن لگا رہی تھی۔اس نے اٹھنے کی کوشش کی مگر سر میں اٹھتی درد کی لہر نے پورے وجود کو جکڑ لیا ۔ وہ ہاتھ اٹھانا چاہتا تھا مگر اسے اپنا ہاتھ اور ٹانگ جکڑی ہوئی محسوس ہوئی اس نے پکار کر کچھ کہنا چاہا
Doctor Check Patient
مگر آواز اندر گھٹ کر رہ گئی ۔ساتھ والے مریض نے اس کی اضطراری کیفیت دیکھ کر نرس کی توجہ اس کی طرف دلائی سسٹر اسے دیکھیں نرس اجنبی کے قریب آئی کیسی طبیعت ہے آپ کی ؟وہ پروفیشنل مسکراہٹ چہرے پہ سجا کر بولی ،اجنبی نے کچھ بولنے کی کوشش کی مگر اس کا حلق خشک ہو گیا نرس نے پاس پڑی بوتل سے پانی گلاس میں انڈیلا اور سہارا دے کر اجنبی کے لبوں سے لگایا۔چند لمبے لمبے گھونٹ بھر کے اس نے اشارے سے گلاس پیچھے کر دیا ۔میں کہاں ہوں ؟اس نے غائب دماغی سے دریافت کیا۔آپ کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا آپ اسپتال میں ہیں میں ڈاکٹر ارشد کو اطلاع کرتی ہوں ،یہ کہ کر وہ کھٹ کھٹ کرتی باہر نکل گئی ۔تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر ارشد اندر آیا۔ہیلو ینگ میں کیسے ہو اب؟ڈاکٹر نے مسکرا کر اجنبی سے پوچھا ۔مجھے کون لایا یہاں ؟
اجنبی نے ڈاکٹر کا سوال نظر انداز کر دیا۔اتنے میں نعمت اللہ اندر داخل ہوا سلام کرنے کے بعد وہ اجنبی سے مخاطب ہوا ،میں معذرت خواہ ہوں میری وجہ سے آپ کو اس حادثے کا سامنا کرنا پڑا خدا کا شکر ہے کہ آپکی جان بچ گئی ورنہ میں خود کا کبھی معاف نہ کرتا،آپ اپنا تعارف کروائیں میں آپ کے گھر خبر کر دوں یا جو آپ کہو ؟۔میرا کوئی گھر نہیں نہ گھر والے وہ سب کو کھا گیا ،نگل گیا میں اس سے چھپتا پھر رہا ہوں اب وہ میرے پیچھے پڑا ہے ۔اجنبی کی آنکھوں میں خوف در آیا وہ عفریت ہے تم بھی اس سے بچنا ،اس نے میری گڑیا کو سسکا سسکا کر مار ڈالا،عائشہ کی جان لے لی اجنبی نے سسکتے ہوئے اپنا بازو آنکھوں پہ رکھ لیا نعمت اللہ نے ہمدردی سے اس کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھا حوصلہ کرو
دوست ہمیں بتائو شاید ہم آپ کی مدد کر سکیں ۔اجنبی نے بازو ہٹایا اور سر سے پائوں تک نظر ڈالی۔برانڈڈ پینٹ شرٹ ،سلیقے سے بنے بال،گھڑی،چمکتے جوتے ہر چیز امارت کا منہ بولتا ثبوت تھی۔ تم تو خود اس کا شکار ہونے والے ہو مجھے کیا بچائو گے۔اجنبی استہزائیہ ہنسی ہنسا جائو تم تو اپنی مدد آپ نہیں کر سکتے میریٰ کیا کرو گے ،جائو اور سنبھلو رزقِحرام آسیب ہے جان لے لے گا تمھاری بھی جائو بچنے کی ترکیب ڈھونڈو اجنبی کی آواز بلند ہو گئی اس نے منہ پھیر لیا۔۔۔۔۔۔