اس کی آنکھوں میں آنسو جاری تھے

Tears

Tears

تحریر : بائو اصغر علی

کچھ چہرے ایسے ہوتے ہیں جو دیکھتے ہی اپنے اپنے لگتے ہیں ان پر بہت جلد ہی بہت زیادہ اہتماد ہو جاتا ہے ایسا لگتا ہے کہ یہ ہی میرا سب کچھ ہے اور جب وہی بروسہ توڑتے ہیں تو انسان اندر سے ٹوٹ جاتا ہے زندگی نرخ بن جاتی ہے نا جینے کو دل کرتا ہے اور نا ہی مرنے کودل کرتا ہے ،وہ میرے سامنے بیٹھی بول رہی تھی میں نے اپنا سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو جاری تھے اور وہ کہ رہی تھی کہ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا میں نے جب اسے پہلی بار دیکھا تو مجھے ایسا لگا کہ یہ کوئی میرا اپنا ہے میری اس کی ملاقات لندن میں ہوئی تھی جو کہ میں ایک ماڈل پرفارمزتھی لندن ،دبئی میرا اکثر انا جانا لگا رہتا تھا اس بار بھی میں ایک شو کے حوالے سے لندن گئی تھی وہاں میری اس کی ملاقات ہوئی تھی وہ ایک پرموٹر تھا بڑے بڑے شو آرگنائز کرتا تھا پیسے والا بھی تھا اور بہت خوبصورت بھی گول مٹول چہرہ ترچھی نگاہیں اور معصومیت وہ پہلی نظر میں ہی میرے دل میں گھر کر گیا اور وہ بھی مجھ پر فدا ہو گیا ہم جب شو سے فارغ ہوتے تو اکثر اکٹھے ہی گومتے پھرتے تھے۔

آہستہ آہستہ اس کی میری ملا قاتوں کا سلسلہ بڑتا گیا پھر کچھ ہی عرصہ میں ہم بہت آگے نکل گئے آخر ہم نے شادی کا فیصلہ کر لیا ،میرے والد محترم تو تقریباََ میں 8یا 9سال کی تھی جب وفات پاگئے تھے اور اس کے بعد میری والدہ نے ہی میری پرورش کی اور پھر میں نے اپنی والدہ کا سہارا بننے کیلئے شوبز انڈسٹری کا روخ کر لیا مگر قسمت نے میرا ساتھ نہ دیا میں کوئی بڑی اداکارہ تو نہ بن سکی مگر بڑے بڑے شو و میں پرفارمنس کر کے اپنے گزارے کیلئے بہت کچھ بنا لیا تھا پیسہ بھی تھا اپنا گھر بھی اور ایک گزراے مافق گاڑی بھی اور پھر شادی کیلئے ایک خوبصورت اور لڑکا بھی مل گیا ،اس بار میں شو کیلئے دبئی گئی ہوئی تھی جب اس نے مجھے فون پر کہا کہ جان جی اس بار امی جی سے شادی کی بات کرو اب اور دور نہیں رہا جاتا میں نے جواب میں کہا ٹھیک ہے جندو2دن بعد میری واپسی ہے میں واپس جا کے امی جان سے بات کرتی ہو وہ ہاں کر دے گی کیو نکہ وہ میری کوئی بات نہیں ٹالتی،اور پھر میں نے واپسی پر اپنی والدہ کو ساری بات بتائی اور کہا کہ امی جان ہم شادی کرنا چاہتے ہیں تھوڑا سوچنے کے بعد میری والدہ نے کہا کہ ٹھیک ہے بیٹی جسے آپ کو مناسب لگتا ہے۔

میں نے یہ ہی سوچھا تھا کہ ساری عمر تو میں یہ کام نہیں کر سکتی اب شادی کر لیتی ہو اور کام کو خیر بعد کہ دیتی ہو ،اور پھر ہماری مرضی کے مطابق شادی ہوگئی ،شادی کے بعد 2بار میں اسی کے ہی آرگنائز کردہ شو میں پرفارم کیا ،ایک دن میں نے کہا کہ جندو اب میں کام نہیں کرونگی اب آپ ہی کے کام سے گھر چلائے گے وہ میری بات سن کر خاموش سا ہو گیا جسے کوئی سکتہ تاری ہوتا ہے میں نے پوچھا کیا ہوا آپ خاموش کیو ں ہو گئے اس نے کہا کچھ نہیں سوچھ رہا ہوں گھر کے سارے اخرجات میں اکیلا کیسے پور ے کروگا ،پھر ساتھ ہی اس نے کہا ٹھیک ہے ہو جائے گا جیسا تم کہتی ہو ویسا ہی ہو جائے گا میرا اس دن دل بہت خوش ہوا ،اور پھر کچھ ہی دنوں بعد میں نے اسے خوشخبری دی کہ ہما رے گھر ایک چھو ٹا سا بیبی آنے والا ہے ،پھر وہ کام کے حوالے سے لندن چلا گیا وہ دوبارہ نہیں آیا کافی عرصہ وہ مجھے خرچا بیجتا رہا اور ہر بار پوچھنے پر یہ ہی کہتا رہا کہ کام ہے جلد ہی واپس آئو گا مگر آیا نہیں اور پھر اللہ پاک نے ہمیں خوبصورت سا بیٹھا دے دیا وہ اپنے بیٹھے کو بھی دیکھنے نہیں آیا وقت گزرتا گیا اب وہ خرچا بھی کبھی کبھار ہی بیجتا تھا ،ایک رات ایسا ہوا کہ مجھے عجیب سی بے چینی لگ گئی کہ کیا وجہ ہے ساری رات مجھے نیند نہیں آئی اس دن میں نے صبح صبح ہی فون کر دیا آگے سے عورت کہ آواز آئی جی کون میں نے کہا آپ کون اس نے فوری کڑک لہجے میں کہا جس کا فون ہے اس کی بیوی ہو اور کسی کا فون کوئی اٹھا سکتا ہے کیا۔

یہ سنتے ہی میری جسے سانس رک گئی میرے ہاتھ پیر سن ہو گئے میرے ہاتھ سے موبائل گر گیا میں نے بڑے مشکل سے اپنی والدہ کو آواز دیا” آآمی امی جی”اس کے بعد جب مجھے ہوش آئی تو میں ہسپتال میں تھی اور پاس ہی میری والدہ بیٹھی ہوئی تھی مجھے ہوش آتے ہی میری والدہ نے کہا بیٹھی آپ کو کیا ہوا تھا مجھے آواز دیکر گر گئی تھی تو ،میں نے کہا کچھ نہیں امی گھر جا کر بتاتی ہو ہم ہسپتال سے گھر آئے تو میں نے اپنی والدہ کو ساری بات بتائی جسے سن کر میری والدہ بھی رونے لگ گئی ،2دن بعد میں نے پھر اسے فون کیا پھر اسے پوچھا کہ وہ عورت کون تھی جس نے 2دن پہلے میری کال پر فون اٹھا پہلے تو اس نے ٹال مٹول کیا جب میں نے غصے سے کہا کہ وہ کون تھی تو اس نے بڑے آرام سے کہا تیری سوتن اس پر لڑائی شروع ہو گی جو بڑتی گئی آخر پھر سارے پروسے ٹوٹ گئے ہمارا رشتہ ٹوٹ گیا نہ میں اس کی جان رہی نہ وہ میرے لئے جندو رہا ،بس اس کی آخری فون پہ ایک بات تھی جس نے مجھے ایسے انسانوںسے نفرت کرا دی اس نے کہا تھا مجھے آپ نہیں مجھے اس کی ضرورت ہے جومیرے ساتھ کام کرتی رہے گی کماتی رہے گی اس کا پیسہ میرا پیسہ بس میرے لیئے کوئی رشتہ اہمیت نہیں رکھتا میرے لیے وہ ہی سب کچھ ہے جو کمائی کرے ، آخر میں وہ کہ رہی تھی میرا بیٹھا 12برس کا ہو گیا ہے میری والدہ 2سال قبل وفات پا گئی ہے میں اپنے گھر میں کپڑے وغیرہ سلائی کر کے گزارہ کر رہی ہو ں اب میرا بیٹھا میرا سہارہ بن جائے گا ،میں کبھی کبار یہاں پارک میں آجاتی ہو اور کبھی کبھار آپ سے ملاقات ہو جاتی ہے آپ سے تھوڑا بہت دکھ سکھ کر لیتی ہوں اور آپ سنائے آج کل کیا مصروفیت ہے میں نے کہا وہ ہی کچھ لکھ دینا کچھ پڑھ لینا بس ، آپ کی داستان سن کر دل رو پڑا ہے کتنے ظالم لوگ ہے جو محبت کو بھی رولا دیتے ہیں جو پیار کی نشانی کو بھی بھلا دیتے ہیں ان کو خدا یاد نہیں جس نے آخرت میں ہر جرم کا حساب کرنا ہے۔

Bao Asghar Ali

Bao Asghar Ali

تحریر : بائو اصغر علی