تحریر: ڈاکٹر ایم اے قیصر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ”وَمَنْ اَحْیَاھَا فَکَاَنَّمَا اَحْیَا النَّاسَ جَمِیعاً (المائدہ: 32) یعنی جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اُس نے پوری انسانیت کو بچا لیا” ورلڈ بلڈ ڈونر ڈے عالمی ادارہ صحت(WHO) کی طرف سے سفارش کردہ آٹھ مہمات میں سے ایک مہم ہے۔ ورلڈ ٹی بی ڈے 24مارچ ، ورلڈ ہیلتھ ڈے 7 اپریل، ورلڈ امیونائزیشن ویک اپریل کے آخری ہفتے، ورلڈ ملیریا ڈے 25اپریل، ورلڈ نو تمباکو ڈے 31مئی، ورلڈ ہیپا ٹائٹس ڈے 28 جولائی، ورلڈ ایڈز ڈے یکم دسمبر اور ورلڈ بلڈ ڈونر ڈے ہر سال جون کی 14 تاریخ کو منایا جاتا ہے۔ اس ایونٹ کو 2004ء میں متعارف کروایا گیا۔ اس دن کو منانے کا مقصد کسی انسان کو خون کا عطیہ بغیر کسی معاوضے یا بدلے کی اُمید کے، فی سبیل اللہ دے کر قیمتی انسانی جان کو بچانے کے شعور کو اجاگر کرنا ہے۔ خون کے عطیات سے ہر سال لاکھوں انسانوں کو نئی زندگیاں ملتی ہیں۔ بعض خطرناک امراض میں مبتلا مریضوں اور پیچیدہ سرجری میں خون کے عطیات کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ اگر مریض کو بروقت خون نہ مل پائے تو موت واقع ہو جاتی ہے ایسے حالات میں کسی انسان کو خون کا عطیہ دینا اسے نئی زندگی دینے کے مترادف ہے۔
سرجری، چوٹ اور بیماریوں سمیت کئی وجوہات ہیں جن کی بنا پر بلڈ ٹرانسفیوژن کی جاتی ہے ۔ بلڈ ٹرانسفیوژن یعنی خون کی منتقلی میں ضرورت کے مطابق مکمل خون یا خون کے اجزاء یعنی خون کے سرخ خلیات، خون کے سفید خلیات، پلازما یا پلیٹ لیٹس میں سے ضروری جزو کی منتقلی کی جاتی ہے۔ اینیمیا خون کے سرخ ذرات کی کمی سے پیدا ہوتی ہے اس کی وجہ سرجری، چوٹ یا کوئی بیماری ہو سکتی ہے، اینیمیا کی صورت میں ایسے خون کو ٹرانسفیوژ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جس میں خون کے سرخ ذرات کثیر تعداد میں پائے جاتے ہوں۔ السر کی وجہ سے معدہ یا انتڑیوں سے خون کا بہنا انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے اس صورت میں بھی بلڈ ٹرانسفیوژن کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ کینسر کی وجہ سے خون کے سرخ خلیات، خون کے سفید خلیات یا پلیٹ لیٹس کی پیداوار کی جسم میں شدید کمی واقع ہو سکتی ہے ایسی صورتِ حال سے نمپٹے کے لئے فوری طور پر بلڈ ٹرانسفیوژن درکار ہوتا ہے۔
بعض بیماریوں میں خون میں پلیٹ لیٹس کا کم بننا یا خون کا منجمد نہ ہونا، ایسی صورت میں معمولی رخم آنے سے بھی کافی مقدار میں خون بہہ جاتا ہے جس سے جسم میں شدید خون کی کمی واقع ہو سکتی ہے اور بلڈ کے ادخال کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ جگر کی انفیکشن کی صورت میں البیومن جو کہ خون میں موجود ایک پروٹین ہے اس کی کمی واقع ہو سکتی ہے اور ایسی صورت میں جسم میں البیومن کی منتقلی زندگی کو بچانے کے لئے اشد ضروری ہو سکتی ہے۔ پلازما خون کا مائع حصہ ہوتا ہے، بری طرح سے جل جانے کی صورت میں جسم کے خون میں پلازما کی شدید کمی واقع ہو سکتی ہے، ایسی صورت میں فوری طور پر اگر پلازما جسم میں منتقل نہ کیا جائے تو بہت جلد موت واقع ہو سکتی ہے۔ بچے کی پیدائش کے وقت یا پیدائش کے بعد بہت زیادہ بلیڈنگ کی صورت میں زچہ کو فوری طور پر بلڈ ٹرانسفیوژن کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ نومود بچے کو پیدائش کے فوراً بعد مختلف وجوہا ت کی بنا پہ خون کی منتقلی کی اشد ضرورت پیش آ سکتی ہے۔
Blood Donation
درج بالا چند اہم وجوہات ہیں جن کی بنا پہ بلڈ ٹرانسفیوژن کی ضرورت پیش آسکتی ہے، ایسی صورتوں میں اگرمتاثرہ شخص کو بروقت خون کی منتقلی نہ کی جاسکے تو موت واقع ہو سکتی ہے۔ ہمارا دیا ہوا خون کا عطیہ زندگی کے کنارے پہ کھڑے، موت کے منتظر آخری سانسیں لیتے ہوئے ان انسانوں کو نئی زندگی دے سکتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم خون کا عطیہ دینے کی اہمیت کو سمجھیں، لوگوں میں اس کا شعور اجاگر کریں، ان کو احساس دلائیں کہ انسانی جان کتنی قیمتی ہے، اگر کوئی انسانی جان ضائع ہو رہی ہو اور ہم اس کو بچانے کی وجہ بن سکتے ہوں ، ہمارا دیا ہوا خون کا عطیہ کسی کو نئی زندگی دے سکتا ہو تو اس سے بڑی نیکی اور کیا ہو سکتی ہے اورپھر اللہ تعالیٰ خود فرما رہے ہیں کہ ”جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچا لیا۔
ہم میں سے بہت سے لوگ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ جسم سے خون نکلوایا تو پتا نہیں کیا ہو گا؟ جسم میں کمزوری آئے گی، جو خون نکل گیا پھر وہ دوبارہ بن نہیں پائے گا، خون کی وہ کمی ہمیشہ رہے گی کبھی پوری نہ ہو پائے گی، ایسی بہت سی غلط فہمیاں ان کے ذہن میں پیدا ہوتی ہیں اور وہ خون کا عطیہ دینے سے ڈرتے ہیں حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ قدرت کا نظام ہے ایک تندرست انسان کے جسم کے مختلف مخصوص حصوں میں خون کے مختلف اجزاء کی تیاری کا عمل ہر وقت جاری ہے۔۔۔ اور اگر یہ عمل صرف یک طرفہ ہو یعنی صرف خون پیدا ہو، ختم نہ ہو تو ذرا سوچئے! ہر روز ہمارا جسم جو خون پیدا کرتا ہے وہ کہاں ذخیرہ ہو گا؟ جتنی ہمارے جسم میں ضرورت یا گنجائش ہے اُتنا خون سمانے کے بعد جو اضافی خون پیدا ہو گا وہ کہاں سمائے گا؟ اسی لئے قدرت نے دوہرا نظام بنایا ہے کہ جیسے خون انسانی جسم کے مختلف مخصوص حصوں میں لگاتار پیدا ہوتا رہتا ہے اسی طرح ایک خاص وقت کے بعد ختم بھی ہوتا جاتا ہے، خون کے ذرات کی عمر تقریباً 100سے 120دن تک ہوتی ہے، یعنی زیادہ سے زیادہ چار ماہ، جو ذرات آج ہمارے جسم میں پیدا ہوئے ہیں وہ تین سے چارماہ میں خود بخود ختم ہو جائیں گے۔ جب خون کے بننے اور ختم ہونے کا عمل مسلسل جاری ہے تو کیوں نہ ہم اسے کسی کو عطیہ کر دیں؟ تاکہ کسی کی جان بچ سکے۔
مجھے بہت اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب پہلی بار میں نے2002ء میں خون کا عطیہ دیا تھا۔ ہمارے کالج میں ایک شخص آئے ، کافی پریشان تھے، بتایا کہ ان کی بہن کے ہاں بچے کی پیدائش ہونے والی ہے، ڈاکٹرز نے آج ہی آپریشن کا کہا ہے اور فوری طور پر خون کی اشد ضرورت ہے قریبی رشتہ داروں میں سے ایک کزن کا گروپ میچ کیا ہے اس نے ایک پیکٹ دیا ہے مزید تین پیکٹ کی ضرورت ہے مگر ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ کم از کم ایک پیکٹ اور ہو تو ہم آپریشن شروع کریں گے۔ اس کا گروپ میرے خون گروپ سے ملتا تھا، میں نے عطیہ دینے کے لئے ہاں کر دی، کالج سے ہی اس شخص کے ساتھ لاہور کے لئے روانہ ہو گیاکیونکہ لاہور کے ایک ہسپتال میں اس کی بہن ایڈمٹ تھی۔ ہسپتال پہنچنے پہ ضروری ٹیسٹ کرنے کے بعد میرے جسم سے ایک پیکٹ خون نکال لیا گیا۔ مکمل معلومات کے باوجود بھی میرے ذہن میں ایک بات تھی کہ چند دن کے لئے کمزوری تو ہو گی لیکن جب میں خون کا عطیہ دے چکا تو اپنے جسم میں ایسی کوئی تبدیلی محسوس نہیں کی سوائے اس کے کہ چند دن نیند بہت سکون سے آئی۔
خدا جانے!وہ سکون جسم سے خون کے انتقال پہ تھا یا کسی کی جان بچانے پہ۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم انفرادی، اجتماعی، تنظیمی اور حکومتی سطح پہ لوگوں میں بلڈ ڈونیشن کی اہمیت کواجاگر کریں، لوگوں میں شعور پیدا کریں اور انہیں احساس دلائیں کہ جو شخص زندگی اور موت سے کھیل رہا ہے، اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے، آپ کے خون کا عطیہ اس کی جان بچا سکتا ہے۔ ذرا سوچئے! وہ کسی کا بھائی ، کسی کا بیٹا، کسی کا باپ ، کسی کی بہن، کسی کی بیٹی یا کسی کی ماں ہے، اگر اس کی جگہ آپ کا بھائی ، آپ کا بیٹا، آپ کا باپ، آپ کی بیٹی، آپ کی بہن یا آپ کی ماں ہو تی تو آپ کیا کرتے؟آج کا یہ دن ”ورلڈ بلڈ ڈونر ڈے” ہمیں اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ حکومت کے ساتھ ساتھ ہم خود بھی اپنے معاشرے میں انفرادی، اجتماعی اور تنظیمی طور پر لوگوں میں بلڈ ڈونیشن کا شعور پیدا کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ جانیں بچائی جا سکیں اور کوئی ایک جان بھی بلڈ کی کمی کی وجہ سے ضائع نہ ہو، اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو توفیق اور ہمت عطا فرمائے، آمین۔
Dr. MA Qaiser
تحریر: ڈاکٹر ایم اے قیصر بانی و چیف ایڈیٹر: فاروق آباد اَپ ڈیٹس بانی و ایڈیٹر: ماہنامہ نئی لگن فاروق آباد ضلع شیخوپورہ، پنجاب، پاکستان Mob: +92 300 469 5424 E-mail: aliqaisar_dr2007@hotmail.com www.fqdupdates.com