قافلہ حق

Azadi March

Azadi March

تحریر : شاہ بانو میر

اللہ کا کلام واحد دنیا کی کتاب
جو آپ کی سوچ کو آپ کی زندگی کو
یوں تبدیل کرتی ہے
خود آپ حیران ہوتے ہیں
جواب قرآن ہی دیتا ہے
یہ کتاب المطھرین المتقین کیلئے ہے
اللہ اس کتاب تک سب کو رسائی نہیں دیتا
مقام بشریت لوح محفوظ میں طے ہیں
لہٰذا
جنت جہنم عالم برزخ الاعراف
یہ سب حقائق ہیں
قرآن پڑھنا شروع کیا تو

اس دنیا کا مضمون انداز ساخت سمجھ آئی
اور
جب سمجھ آئی تو زبان سے
دل سے ہر عضو سے ہر سانس سے ہر لمحہ
صرف ایک ہی کلمہ نکلا
الحمدللہ
اپنی کلاس میں بھی ایک ہی بات بار بار کہتی ہوں
سوچیں
اتنے لاکھوں کروڑوں لوگ اس وقت کہاں کہاں مصروف ہیں
یہ صرف اس رب کا احسان ہے کہ
ہمیں وہ اپنا
قرآن پھر ترجمہ ساتھ تفسیر پڑہنے کی
اعلیٰ توفیق عطا فرما رہا ہے
یہ احسان یہ کرم یہ عطا سب پر نہیں ہے
قرآن کی تفسیر انسان کی سوچ کو اس کے اصل خالق کی تخلیق سے ملاتی ہے
ورنہ
اس سے پہلے کی زندگی تو ایک مجسمہ جس کے پاس دولت شکل لباس سب ہے
وہ مجسمہ متحرک تو ہے
لیکن
ہر نعمت سامنے دیکھنے کی حد تک
اور
جب معرفت الہیٰ ملتی ہے تو شعور کا خزانہ
جسے رب پسند کر لے اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے
شعور کی آنکھ
شعور کی پرکھ ملنے کی دیر ہے
لاکھوں کے زیور ریت
قیمتی ملبوسات مٹی
عالیشان گھر سرائے
اور
سیاہ دل جو اب قرآن کے نور کو پانے لگا
سیاہی جیسے نکلتی جا رہی ہو اور روشنی کے ساتھ دل کا بوجھل پن ہلکا اور
روشنی بھرا ہوا
چاہتیں بدل گئیں خواہشیں تبدیل ہو گئیں
بات اپنی ذات ا
سے اوپر اٹھ گئی
اب درد دوسروں کا محسوس ہونے لگا
درد کو بانٹنا ہے استاذہ کا حکم ہے
انہیں بھی صراط مستقیم دکھانا ہے
یہ لازم ہے
قرآن سے جڑے تو تحفہ میں صحیح بخاری ملی
جہاں پڑہا
آپﷺ نے فرمایا معمولی مٹی کے گھروں میں رہنے
والے بلند و بالا عمارات کو تعمیر کریں گے
ناحق خون اور حق بات دونوں عام ہوں گے
لباس کی نمائش عام ہوگی
عورت لباس پہن کر بھی بے لباس کے زمرے میں آئیں گی
بے عمل لوگ عروج پائیں گے
معاشرہ جھوٹ کے اس آسان انداز پر اتنا کامیاب ہوگا
کہ
اکثر بے ہُنر دنیا کا کامیاب انسان گنا جائے گا
خوش آمد
رشوت کبھی مردوں اور کبھی بیویوں کو گھروں میں دیں
پھر
بتانا بھی ضروری سمجھیں
دیکھنے والے اور ساتھ کام کرنے والے بخوبی واقف ہیں
سب کا سب فریب نگاہ ہے
زمانے کی منافقت اور پیسہ جب چند ہاتھوں میں سمٹ آئے گا
ایسی عدم مساوات اور معاشی ظلم
اہل ایمان برداشت نہ کر پائیں گے
اس مکروہ اور منافقت زدہ ماحول کو
دور علاقوں میں سادہ انداز سے
دل کے سکون کے ساتھ اپنے رب کے قریب رہیں گے
یا
گھروں میں رہنا پسند کریں گے
کیا اس وقت جو جھوٹا مصنوعی ماحول میرے ملک کا ہے
وہ ان باتوں سے ملتا جلتا نہیں
یوں نہیں لگتا
دنیا ایسے مافیا کی گرفت میں جکڑ چکی ہے
اور
اس میں کچھ ہی دیر میں ہمیں وہ لوگ کامیاب نظر آتے ہیں
جو کل کہیں نہیں تھے
اپنی موجودہ حکومت کا ہی لے لیتے ہیں
کل ہی کی بات ہے
نعرے جلسے دھمالیں جھومر بھنگڑے رقص موسیقی
جیسے آئیں گے اور رات میں ملک کی تقدیر بدل دیں گے
اور
آج
مارچ ہونے جا رہا ہے
کشمیر کو ہم کھو چکے ہیں
ماضی کی طرح شور مچانے کیلئے سیاست اس کے نام پر زندہ رکھیں گے
وگرنہ سیانے نقصان ہوچکا کہہ چکے
آج کوئی شعبہ سنبھالے نہیں سنبھالا جا رہا ہے
عمران خان نے جب خود کہ دیا
وہ ٹیم نہیں ملی جس کی ضرورت تھی
بھان وتی کا کنبہ حسیناوں کے جھرمٹ سے بنایا جا سکتا ہے
کیا یہ انداز سیاست بنی اسرائیل کا اور ماضی کی رومی حکومتوں کا نہیں
وہ مخالف فوج کو عورتوں سے زیر کرتے تھے ؟
یہ عورتیں تو اپنے الیکشن جیت گئیں
پاکستان کو دیا کیا؟
اچھا موسم اچھاحکمران لا تا ہے
ملک میں سیلاب آ گیا
زلزلہ آ گیا تو باجی نے مسکراتے ہوئے ویلکم کیا
یہ ہے آپ کی ٹیم یہ ہے نیا پاکستان جس نے کرامت دکھانی تھی؟
نیچے والے دو وقت کی روٹی کو رو رہے ہیں
اور
یہ الپسراء بنی ٹی وی پر بناؤ سنگھار کے ساتھ
بھوکوں کے دل اور جلانے آجاتی ہیں
انہیں اس ملک کا نہ احساس ہے نہ درد
بیرون ملک ہڑہی یہ کھیپ
بھوک افلاس کو کیا جانیں

ان تمام بیرونی آلہ کار عورتوں سے اور دیگر عناصر سے
چھٹکارے کا وقت اب آگیا ہے
آزادی مارچ
ان جیسی نااہلکنبے سے نجات چاہیے
پہلی اسمبلی ڈیزل کے بغیر چل نہیں پا رہی
اب ڈیزل کی منت سماجت کی جا رہی ہے
کہ
ہماری نا اہلی کا ڈھول نہ پیٹو
پاکستان کیلئے
یہ مارچ ہے یا دھرنا تاریخ ہے
میرا ملک نہ ایٹم بم بنا کر بدلا
بہ بھٹو کو پھانسی دے کر بدلا
نہ بے نظیر کی شھادت نے اسکو بدلا
نہ
ڈاکٹر قدیر کی معافی نے بدلا
نہ نواز شریف پر تہہ در تہہ جھوٹے بے بنیاد الزامات نے بدلا
ملک
مؤثر انداز سے بدلنے جا رہا ہے
یہ ہے اپنے کام پر یقین
نہ کسی کا انتظار ہے نا کسی کو ساتھ لےجانے کی فرمائش
یہ ایسا قافلہ حق ہے کہ
اس کے چلنے کی دیر ہے
کہ
آپا فردوس کی قینچی کی طرح
چلنے والی زبان سِل جائے گی
کل کے دھرنے میں سارا ملک بڑے غیر فطرتی انداز میں باہر نکلا تھا
نجانے جوانوں کو کیا ہو گیا تھا
ماؤں بہنوں کو فخر سے نئے پاکستان کے جھمگھٹے میں لا رہے تھے
مقصد حاصل ہو کر بھی زیرو ہی رہے
آج پھرسے مارچ ہونے جا رہا ہے
انشاءا للہ مارچ ہو رہا ہے
پھر سے
عورت باہر نکلے گی بچے باہر نکلیں گے
ملک کے وہ تمام غیور وہ تمام باشعور لوگ باہر نکلیں گے
یہ ریاست مدینہ کا صرف قولی نظام نہیں
عملی نظام پوری طاقت سے سامنے لائیں گے
مجودہ غیر فطرتی سیاست جو چند مخصوص لوگوں کیلئے ہے
عوام اسے مسترد کرتے ہیں
اور
ان لوگوں کو بھی جنہوں نے تبدیلی کے نام پر
اپنی اور اپنی اولادوں کی زندگی تو بدل لی
اور
بائیس کروڑ کو مرتے دیکھتے رہے
جن کے دن عید رات شب برات اسی جماعت نے بنائی
عوام بھوکوں مرتی رہی
اب عوام ان کو اٹھا کر باہر مارے گی
یہ سلیکٹڈ منتخب محدود
غیر معیاری طرز سیاست ہمیں منظور نہیں
جس میں چند ایک تو اچھے کھانے کھائیں
باقی قوم کشکول پکڑ کر لنگر کھائے
عمران خان پاس رکھو ایسا پاکستان
انشاءاللہ
یہ مارچ بہت کچھ درست کروائے گا
ہم مسترد کرتے ہیں تمہارے اس جدت پسند نظریات کو
جو خود فریبی کے سوا کچھ نہیں
میرے ملک کی وہ غربت اچھی جس میں
بچں کی سسکیاں اور ماؤں کی بھیگی آنکھیں تو نہیں تھیں
واپس آئیں گے اپنے سادہ طرز معاشرت پر
جہاں کشکول لے کر نہیں
کما کر فخر سے دال روٹی باپ بچوں کو کما کر دے گا
جو اصل ریاست مدینہ ہے
نہیں چاہیے ایسا نیا پاکستان

چائنہ طرزکی سزأئیں وزیر اعظم اور نواز شریف کیلیے
یو ٹرن نہیں لیتیں ایک ہی معیار رکھتی ہیں
لہٰذا
جس طرح نواز کا اوپن ٹرائل کیا گیا
اسی طرح ہم مثال قائم ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں
چئیر مین پی ٹی آئی پارٹی فنڈنگ کیس فیس کریں
اوپن ٹرائل
ٌوہاں بند کمرے کی درخواست دینا
کیا کھلا تضاد نہیں ہے ؟
پاکستان میں جس سے بات ہوئی
سب مارچ میں شامل ہونے کیلئے تیار ہیں
کیوں ؟
انہیں اس مارچ میں ضرور شامل ہونا ہے
کیونکہ
انہیں دو وقت کیلئے قطار میں لگ کر لنگر نہیں کھانا
نہ ہی ایسی لاغر زندگی اپنے بچوں کو منتقل کرنی ہے
وہ پاکستانی ہیں اپنا رزق کما کر عزت سے کھائیں گے
ماضی کی روایت ہے وزیر اعظم کی تبدیلی
اسی ملک میں متعدد بار ہم نے وزراء اعظم کو نظام بچانے کیلئے ہٹتے دیکھا ہے
روایت قائم ہے
عوامی فلاح کیلئے ملک کیلئے عمران خان اپنی ذات کو قربان کردے
اور
سمجھدار اور صاحب فراست اور صاحب حکمت
لچکدار سوچ کے مالک
شاہ محمود قریشی کو وزیر اعظم نامزد کر دے
ایسا کرنا کوئی مشکل کام نہیں
ٴاگر
عمران خان بائیس کروڑ کے پیٹ میں باعزت روزگار
اور
ملک کا کشکول توڑنا چاہتا ہے
خود کو وزرات عظمیٰ سے ہٹا لے
مارچ کے دن قریب آ رہے ہیں حکومتی لہجے تناؤ سے ہٹنا شروع ہوئے
حکومت کی اکڑ ڈھیل میں بدلی اب ڈِیل کی کوشش ہے
عوام کیلئے بہترین حل کم فہم وزیر اعظم طلسماتی شخصیت کے آسرے پر بائیس کروڑکو
کچھ نہیں دے سکا
زمینی حقائق پاکستان کے وہی ہیں
تبدیلی ناگزیر ہے ٌ
وسیع ترقومی مفاد کیلئے
جیسے کرکٹ میں اپنی جگہہ چھوڑ کر عزت پائی ٌ
آج عوام کو بھوک سے بچانے کیلئے
اپنی سیاسی نا تجربہ کاری کا اعتراف کر کے ملک کو بحران سے بچائیں
اور
وزارت عظمیٰ سے الگ ہو جائیں
ورنہ ؟
تاریخ میں وزیر اعظم نہیں
دلوں کے فاتح بن کر بائیس کروڑ کی دعائیں پائیں

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر