11 ستمبر کو قائد اعظم ڈے پر آرٹیکل لکھا جو بیگم کلثوم نواز کی وفات کی وجہ سے پبلش نہیں کیا
آج 11 ستمبر ہے یوفات قائد ؒ ہر سال ہم مقررہ دنوں میں اپنے ہیروز کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اس سال تدبر القرآن کی وجہ سے سوچ میں ایک نئی جہت ابھری ہے کہ ہم ماضی قریب کے تمام ہیروز کو یاد رکھتے ہیں اور حسب استطاعت کچھ لکھتے بھی ہیں مگر اب زندگی میں پختگی کی ضرورت قرآن پاک سکھا رہا ہے ابتدائی حروف اب بولنے آگئے لکھنے آگئے اب اصل حروف اور اصل شخصیات جو دراصل قائد کو قائد بنا گئیں ان کو لکھا جائے اور عام پاکستانی تک اس کے قابل فخر رہنماؤں کے واقعات پہنچائے جائیں ہم نے اپنا ماضی بعید پڑھنا چھوڑ دیا کتابیں جن میں ان کے اوصاف تھے وہ دیمک کھا گئی قوم کپڑے زیور اور کاروبار میں کھو گئی نتیجہ ہر صاحب اقتدار پیروی عمر کی کرنا چاہتا ہے مگر بغیر عمر کی زندگی کی سادگی اور عدل کے بیرونی دشمن سے سچا مقابلہ مشکل لگتا ہے لہٰذا خود کو زندہ رکھنے کیلئے اندرونی محاذ جہاں ایک حاکم ہے اور دوسرا محکوم بندھے ہاتھ والے سے حکمرانوں کو مقابلہ آسان لگتا ہے جو عدل کے انصاف کے سراسر منافی ہے ہر اہم دن پر انشاءاللہ اسلامی تاریخی شخصیات پر لکھنا ہے تا کہ عوام الناس جان سکے کہ موجودہ دور کے ہیرو دراصل کن کی پیروی کرنا چاہتے ہیں
موجودہ حکمران اسلامی سوچ کو اپنائیں تو چھوٹی انتقامی سوچ سے ابھر کر صرف خود اقتدار کی دنیا کے بے تاج بادشاہ نہ بنیں کامیاب اسلام کے فروغ کیلئے کفار سے جنگیں ثابت ہیں مگر جب یہ جنگیں آپس میں سیاسی اختلافات کی بنیادوں پر شروع ہوئیں تو اسلام کا زوال شروع ہوا کعبہ کی حرمت حضرت زبیر کو شہید کرنے کیلئے پامال کی گئی یکم محرم حضرت عمر فاروق کے حالات زندگی ان کی شھادت کی مناسبت سے چنا ہے موجودہ حکمرانوں سے حضرت عمر کی طرز پر طاقتور فلاحی اسلامی ریاست بنانے کی استدعا کرتے ہیں حضرت عمر فاروق ؓ آپ کا نام مبارک عمر ہے اور لقب فاروق کنیت ابو حفص لقب و*کنیت دونوں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عطا کردہ ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مرہ کی اولاد میں سے ہیں جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عدی کی اولاد میں سے ہیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ تھے آپ ان دس صحابہ میں سے ہیں جن کو جنت کی خوشخبری دی گئی آپ کے دور میں اسلامی مملکت 22 لاکھ مربع میل کے رقبے پر پھیل گئی دل میں انقلاب برپا ہوا اور وہیں سے آپﷺ کی خ دمت اقدس میں حاضر ہوئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا یوں پہلی بار مسلمانوں نے خانہ کعبہ میں نماز ادا کی حجرت کے موقعے پر بھی آپ کی بہادرانہ طبیعت نے کعبہ میں کھڑے ہو کرکہا جسے اپنے بچے یتیم اور بیویاں بیوہ کروانی ہیں وہ مجھے روک لے کسی کی مجال نہ ہوئی کہ آپ کے سامنے آتا
آپ رضی اللہ تعالی عنہ مکہ میں پید ا ہوۓ اور ان چند لوگوں میں سے تھے جو لکھ پڑھ سکتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعا سے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام قبول کر لیا اس لے آپ کو مراد رسول بھی کہا جاتا ہے.
ہجرت کے موقعے پر کفار مکہ کے شر سے بچنے کے لیے سب نے خاموشی سے ہجرت کی مگر آپ کی غیرت ایمانی نے چھپ کر ہجرت کرنا گوارہ نہیں کیا آپ نے تلوار ہاتھ میں لی کعبہ کا طواف کیا اور کفار کے مجمع کو مخاطب کر کے کہا ” تم میں سے اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کی بیوی بیوہ ہوجائے اس کے بچے يتيم ہوجائیں تو وہ مکہ سے باہر آکر میرا راستہ روک کر دیکھ لے” مگر کسی کافر کی ہممت نہ پڑی کہ آپ کا راستہ روک سکتا رسول کريم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک موقع پر فرمايا “اگر میرے بعد کوئی اور نبی مبعوث ہونا ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے”” جامع ترمذی”” ایک اور موقع پرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمايا “”جس راستے پر عمر ہو وہاں سے شیطان راستہ بدل لیتا ہے”” صحیح بخاری “”آپکے نزدیک معصوم ذات صرف نبی اکرمﷺ کی تھی باقی سب عام انسان ہیں جن سے غلطیاں ہو سکتی ہیں “” اسی لئے حکمرانوں کی بابت آتے جاتے قافلوں سے عام لوگوں کی حالت اور امیر کی حالت کے بارے میں وقتا فوقتا پوچھتے کسی عہدہ دار کے بارے میں شک ہوتا تو فوری طلبی کا حکم دیا جاتا اور پوچھ گچھ کی جاتی ابن سعد فرماتے ہیں کہ جب آپ کسی بزرگ کو عامل بنا کر بھیجتے تھے تو یہ شرائط سنا دیتے تھے 1گھوڑے پر کبھی مت سوار ہونا 2-عمدہ کھانا نہ کھانا 3باریک کپڑا نہ پہننا 4حاجت مندوں کی داد رسی کرنا اگر اس کے خلاف ہوتا تو سزائیں دیتے سادہ زندگی اور عام انسان سے بھی کمتر درجے پر گزر بسر کرتے فرماتے تھے کہ “” مجھے رعایا کا حال کیسے معلوم ہوگا اگر مجھے وہ تکلیف نہ پہنچے جو تکلیف انہیں پہنچ رہی ہے””
حضرت عمرؓ کے زمانے میں دور دراز علاقوں کو فتح کے بعد ان بے آباد علاقوں کو آباد کر کے باقاعدہ درس و تدریس کا سلسلہ شروع کروایا گیا مساجد بنائی گئیں یہاں منظم اسلامی ریاست اور اس کا کامیاب ن،ظام متعارف کروایا گیا کوفہ میں پہلے گھاس پھونس کے گھر تعمیر کئے گئے ایک بار آگ لگی تو سب جل گئے سیمنٹ کے پختہ گھروں کی تعمیر کی اجازت اس شرط پر دی کہ کوئی گھر تین کمروں سے زیادہ نہ بننے پائے یوں اس شہر میں امیر غریب سب کے گھر ایک جیسے بن گئے سب یکساں نظر آنے لگے حضرت عمر فاروق ؓ کے دور حکومت میں جن ملکوں اور علاقوں کو فتح کیا گیا ان میں عراق شام دمشق حمس یرموک، بیت المقدس کساریہ تکریت خوزستان آذر بائیجان تبرستان آرمینیہ فارس کرمان سیستان مکران خراسان مصر سکندریہ سمیت دیگر علاقوں کو فتح کیا اور اسلام کا پرچم سربلند کیا حضرت عمر ؓ کے دور میں قائم ہونے والے محکمے محکمہ فوج پولیس ڈاک بیت المال محاصل جیل زراعت آبپاشی اور تعلیم کے محکمہ جات کا قیام آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ہوا اس سے پیشتر یہ محکمے موجود نہ تھے ان محکموں کے قیام سے یکسر نظام خلافت نظام حکومت میں بدل گیا تمام محکموں کے افسران اور ملازمین کی تنخواہیں مقرر کی گئیں “” حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سب سے پہلے امیرالمومنین کہہ کر پکارے گئے”” آپؓ نے بیت المال کا شعبہ فعال مکاتب و مدارس کا قیام اور اساتذہ کی تنخواہیں اسلامی مملکت کو صوبوں اور ضلعوں میں تقسیم کیا عشرہ خراج کا نظام نافذ کیا مردم شماری کی بنیاد ڈالی محکمہ عدالت اور قاضیوں کے لئے خطیر تنخواہیں متعین کیں احداث یعنی پولیس کا محکمہ قائم کیا جیل خانہ وضع کیا اورجلاوطنی کی سزا متعارف کی باقاعدہ فوج اور پولیس کے ملازمین بھرتی کئے گئے سن ہجری جاری کیا، محصول اور لگان زراعت کے فروغ کے لئے نہریں کھدوائیں نہری اور زرعی نظام کو جدید تقاضوں میں ترتیب دیا گیا باقاعدہ حساب کتاب کے لئے مختلف شعبوں کا سربراہ مقرر کیا حرم اور مسجد نبوی کی توسیع باجماعت نماز تراویح فجر کی اذان میں الصلوٰۃ خیر من النوم کا اضافہ ۔ تمام محکمہ جات کے لئے دفاتر کا قیام نئے شہروں اور صوبوں کا قیام ۔ تجارتی گھوڑوں پر زکوٰۃ کا اجراء جہاد کے لئے باقاعدہ گھوڑوں کی پرورش کا اہتمام ۔ حربی تاجروں کو تجارت کی اجازت مفلوک الحال، یہودیوں اور عیسائیوں کے لئے وظائف مکہ اور مدینہ کے درمیان مسافروں کے آرام کے لئے سرائیں اور چوکیوں کا قیام بچوں کے وظائف قیاس کا اصول رائج کیا فرائض میں عدل کا مسئلہ ایجاد کیا امام اور موذن کی تنخواہ مقرر کی مساجد میں وعظ کا طریقہ جاری کیا عوام کو فوری اور عدل پر مبنی انصاف فراہم کیا جاتا اپنی ذات کسی احتساب سے مبّراء نہیں تھی ایک بد بخت غلام لولو نے خنجر کے وار کر کے آپکو شدید زخمی کر دیا جانبر ہونے کی امید نہ رہی تو آپ نے حضرت عائشہ سے درخواست کی کہ آپﷺ سے ملحقہ زمین جو حضرت عائشہؓ نے اپنے لئے مختص کر رکھی تھی اپنے لئے مانگی انہوں نے بوجہ قربت آپﷺ آپ کو وہ دے دی یوں یکم محرم کو مسلمانوں کے پہلے امیر المومنین شھادت کا رتبہ پا کر دنیا سے رخصت ہو گئے یہ ہیں ہمارے وہ ہیرو جو ماضی بعید کا حصہ تھے اور آج کے ہر اسلامی ملک کی شناخت بھی ان کی زندگی کے اوراق اب پلٹنے ہیں اور تبدیلی جن سے آئی ان کے اوصاف پڑہنے بھی ہیں پڑھانے بھی ہیں تا کہ مصنوعی نہیں اصل تبدیلی آئے