نیا اور کوئی

Dream

Dream

رنگ باتوں کو دیا تو نے نیا اور کوئی

کیوں سمجھتا ہے مرے دل میں چھپا اور کوئی

ہم نے چاہت سے بلایا تھا اسے محفل میں

دیکھتے ہی رہے پھر ان کی ادا اور کوئی

تم جو چاہو تو سرِ عام دکھا دوں تم کو

بات یہ سچ ہے کہ ہے اس کی رضا اور کوئی

اس سے پہلے بھی کیا تو نے کیا وہ کم تھا

اب تماشا نہ دکھا مجھ کو نیا اور کوئی

جو مرے لوگ بچے ہیں اب انہیں رہنے دے

حوصلہ مجھ میں نہیں پھر ہو جدا اور کوئی

اس طرح بات بزرگوں سے کیا کرتے ہیں

جس طرح لے گیا ہو شرم حیا اور کوئی

زندگی ہو گئی دشوار یہاں چل ارشی

پھیلتی ہے یہاں اب پھر سے وبا اور کوئی

سب کو معلوم ہے ہوتا ہے رہا اور کوئی

جرم کس نے کیا سولی پہ چڑھا اور کوئی

عمر بھر چاہا جسے وہ نہ رہا اپنا اب

ہم کسی اور کو اور ہم کو ملا اور کوئی

کون آئے گا یہاں اس کو تسلی دینے

غمگسار اس کا نہیں تیرے سوا اور کوئی

لوگ ملتے ہیں حسیں آج بھی ہم کو لیکن

دل کو بھایا نہیں تیرے سوا اور کوئی

لوگ ہر روز ہی بستے ہیں اجڑ جاتے ہیں

تو بھی اب اپنی نئی دنیا بسا اور کوئی

اس کو پڑھنے سے نہیں ملتے بچھڑنے والے

اب وظیفہ بتا مجھ کو تو نیا اور کوئی

کب تلک ہوتا رہے گا تو پریشان ارشیؔ

اپنی آنکھوں میں نئے خواب سجا اور کوئی

محمد ارشد قریشی