ہم اکثر سوچتے ہیں کہ وہ کون سے لوگ ہیں جن کی وجہ سے اب تک یہ دنیا چل رہی ہے یا قائم ہے ۔ پھر ہمارے ذہن میں ہمیشہ ہی اللہ والوں کا خیال آتا ہے یا ان لوگوں کا جو دنیا سے الگ کسی گوشے میں بیٹھے ہر چیز سے لاتعلق زندگی سجدوں میں گزار دیتے ہیں ۔ ہاں یہ سچ ہے لیکن دنیا میں ایسے لوگ کتنے ہونگے شاید اتنے ہی جتنے انگلیوں پر گنے جا سکیں ۔ اور پھر جس زندگی سے اللہ کی مخلوق کا کوئی بھلا نہ ہو وہ چاہے سجدے میں گزار دی جائے یا کسی میکدے میں ، کیا فرق پڑتا ہے ۔ اگر فرق نہ پڑتا تو اللہ نے اپنے حقوق سے پہلے ہم پر اپنی مخلوق کا ، اپنے انسانوں کے تئیں حقوق کی ادائیگی کا حکم نہ دیا ہوتا ۔۔ دنیا ایک مقناطیسی کشش رکھنے والی جادونگری ہے اور اس میں آج تو کامیابی کا ایک ہی منتر ہے اور وہ ہے پیسہ ۔ کتنا ؟ اسکی کوئی حد نہیں ہے۔
لیکن قارون جیسے لوگوں کے انجام نے بھی یہ ثابت کر دیا کہ زندگی اگر ضرورت میں رہے تو وہ تو فقیر کی بھی پوری ہو جاتی ہے اور اگر تعیش میں چلی جائے تو بادشاہوں کی بھی ادھوری رہ جاتی ہیں ۔ ۔۔
پیسے کے عشق میں جہاں آج کی دنیا میں ہم اپنے رشتے بیچ رہے ہیں ، اپنی عزتیں نیلام کر رہے ہیں ، اپنی محبتوں کو سولی چڑھا ریے ہیں اور خدا کو یہ کہہ کر چیلنج کر رہے ہیں کہ جب مریں گے تو دیکھی جائیگی ۔۔۔۔
وہیں اسی آج کی دنیا میں سب سے مقبول اور پسندیدہ برطانوی شاہی خاندان ، کہ جس میں شامل ہونے کے لیئے ہی نہیں ، صرف ان سے ملنے اور دیکھنے کے لیئے بھی لوگ مرے جاتے ہیں ، جہاں پر ایک تھی شہزادی ڈیانا ، جس نے عام سے گھر سے اٹھ کر شہزادی کا مرتبہ حاصل کیا ، اور پھر اس تاج کو ٹھکرا کر انسانیت کی بھکائی کے کاموں میں اپنا حصہ ڈال کر یہ سبق دیا کہ لوگ تاج کے نہیں بلکہ تاج اچھے لوگوں کا محتاج ہوتا ہے ، اسی شہزادی ڈیانا کے بیٹے ہیری نے عام سی صورت والی ، طلاق یافتہ ، خود سے تین برس بڑی عورت میگھن مارکل سے شادی کر کے محبت اور انسانیت کی ایک خوبصورت مثال پیش کی، تو محض تین سال میں ہی اس بیوی کیساتھ مل کر دنیا کے لیئے ایک مثالی فیصلہ کر لیا کہ نہیں جینا محنت کشوں ، مزدوروں کے خون پسینے کی کمائی سے نچوڑے ہوئے ٹیکس کے مال پر ، کہ وہ کمائیں اور ہم شاہی محلوں میں بیٹھ کر ان کے مال پر عیش کریں ۔۔
واللہ آج کی دنیا میں جب بھائی بھائی کے یتیم بچوں اور اسکی بیوہ کے سر پر سے گھر کی چھت چھین لیتا ہے اور اف نہیں کرتا ، بہنوں کے مال پر نگرانی کے بہانے ڈاکے ڈالتا ہے اور شرمسار نہیں ہوتا ، باپ کی چھت بیوہ ماں کے انگوٹھے دھوکے سے لگوا کے باہر باہر ہی اسے بیچ کر بھاگ جاتا ہے اور اسے غیرت نہیں آتی کہ اس کی ماں سڑک پر کھڑی بھیک مانگ کر روٹی کھانے پر مجبور ہو گئی ہے ،اسے موت نہ آئی ، اسی آج کی دنیا میں شہزادہ ہیری اور اس کی بیوی میگھن یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم پر محل میں رہنے کے دوران جو چوبیس لاکھ پاونڈز خرچ ہوئے ہیں وہ سب ہم قرض سمجھ کر تھوڑے تھوڑے کر کے خزانے کو واپس لوٹائیں گے کہ اب ہم اپنے ضمیر پر مذید یہ بوجھ برداشت نہیں کر سکتے کہ ایک ایک سکے کے لیئے محنت کرنے والی عوام کے مال پر عیش کریں، اس کے بجائے ہم ان کے جیسے ہی گھر میں رہیں گے ان جیسی ہی محنت کرینگے ، ان جیسے ہی مسائل کا سامنا کریں گے اور اسی عام آدمی کیساتھ ، ایک عام آدمی کی سی زندگی گزاریں گے ۔
بطور مسلمان یہ سبق ہمیں ہمارا دین سکھاتا ہے لیکن افسوس اس کا عملی ثبوت ہر بار ہمیں کوئی غیر مسلم ہی کیوں پیش کرتا ہے ۔ ہیری اور میگھن نے آج کے انسانوں کو وہ پیغام دیا ہے جو ہمارے نبیوں اورولیوں نے ، جب سے دنیا بنی ہے ہمیشہ ہمیں دیا ہے ۔ لیکن پھر بھی ہم میں سے ہر ایک نہ ہیری بننے کا حوصلہ رکھتا ہے نہ ہی میگھن بننے کی خواہش ۔ آج بھی ان کے اس اقدام پر ہزاروں لاکھوں جوان انہیں احمق بھی قرار دے رہے ہونگے اور بیوقوف بھی ۔ ان کی تعریف میں لفاظی کرنے والوں کو بھی ان کی تقلید کرنے کا کہیں گے تو کبھی اس پر آمادہ نہیں ہونگے کیونکہ ان کی بنیاد میں ہر رشتے اور احساس سے اوپر پیسے کا عشق ہی سوار ہے ۔ وہ اس سکون کو ، اس بلندی کو کبھی محسوس نہیں کر سکتے جو ہیری اور میگھن نے پالیا ہے ۔ اب ان کے سروں کو تاج کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ اب وہ انسانیت کے تخت پر براجمان ہو چکے ہیں۔
یہ وہی لوگ ہیں جن کے وجہ سے آج بھی انسانیت پر اعتبار اور اس کا بھرم قائم ہے ۔ یا شاید ان لوگوں میں سے کہ جن کی وجہ سے اللہ پاک نے اس دنیا کو ابھی تک ختم نہیں کیا ۔ ہاں وہ ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جن کے سبب انسانیت پر اعتبار ابھی سلامت ہے۔