تحریر : وقار انساء پاکستان کے ایک بڑے رقبے پر محیط شہر کراچی پاکستان کا آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور دنیا میں دوسرا بڑا شہر شہر قائد کی رونقیں اور رنگینیناں دیکھنے سے تعلق رکھتی تھیں رات کو جلتی سٹریٹ لائٹس اور کاروبار زندگی کے رواں دواں رہنے کی وجہ سے اسے روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا اسی وجہ سے یہ عام بات تھی کہ رات شہر کراچی میں ہوتی ہی نہیں رات کو بھی اس کی گہما گہمی دن کا گمان دیتی تھی اس شہر کا معتدل موسم اور خوبصورت تفریحی مقامات اس کے حسن کو چار چاند لگاتے تھے امراء کی ایک بڑی آبادی یہاں بستی ہے مسجد طوبی جو دنیا کی ایک گنبد والی بڑی مسجد ہے شہر کراچی ہی میں موجود ہے-اس شہر میں بين الاقوامی بندرگاہ ہونے کی وجہ سے یہاں صنعتی سرگرمیاں دوسرے شہروں سے قبل شروع ہوئیں مختلف مذھبی لسانی اور نسلی گروہ یہاں آباد ہیں اس لئے يہ شہر منی پاکستان بھی کہلاتاہے
شوبز سے تعلق رکھنے والے لوگ کثیر تعداد میں یہاں آباد ہوئے کیونکہ یہاں زیادہ تعداد میں لوگ شوبز کے آباد ہوئے اسی لئے کراچی ٹی وی سینٹر نے خوبصورت اور پر اثر کہانیوں اور ڈراموں سے ناظرین کو محظوظ کیا اسی لحاظ سے شاپنگ مال اورجدید طرز کے ملبوسات کے بوتیک بھی مرکز نگاہ رہے پھر حالات نے ایسا الٹ پھیر کھایا کہ روشنیوں کا یہ شہر سرخیوں کا شہر بن کر رہ گیا –
یہ سرخیاں روز بروز بگڑتی صورتحال کی بھی تھیں کہ خبروں کی سرخیاں بنتی رہیں- تو کبھی یہ سرخیاں لہو کی سرخیاں تھیں ملکی حالات اور کراچی شہر کی امن وامان کی ابتر حالت نے کئی لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کر دیا -خوبصورت عمارتیں بھی بنیں کارخانےبھی !! لیکن؟؟ بڑی محنت اورجمع پونجی لگا کر یہ عمارتیں اور کاخانے بہت دفعہ حادثات کی نظر ہوگئے یوں بلند بالا عمارات مٹی کا ڈھیر بن گئیں
Pakistan Terrorism
دہشتگردی کی لپیٹ میں سارا ہی ملک آیا لیکن کراچی میں سکون اور امن کا لفظ کہیں دور جانکلا نت نئی وارداتوں کی آماہ چگاہ بنا یہ شہر اس کے باسیوں کا خوف سے ہر پل لہو خشک کرنے لگا-گھر سے باہر نکلتے اس کے شہری خوف وہراس کا شکار رہنے لگے کہ کیامعلوم گھر سے خیریت سے نکلنے والے کسی بم دھماکے کسی ٹارگٹ کلنگ اور بلا اشتعال فائرنگ کا شکار ہو کر یا تو ایمبولینس میں کسی ہسپتال میں جا پہنچیں گے-یا خون میں تر بترگھر پہنچیں گے – روزگار ہویا تعلیم اس راہ میں نکلے لوگ دھڑکتے دل اور خوف میں ڈوبے اپنے گھروں کو خیریت سے پہنچنے کی دعائیں کرتے ہیں مائیں بہنیں بیویاں روز گرتے آنسوؤں کو سنبھالے اپنے پیاروں کو رخصت کرتی ہیں اسی پر ہی يہ سلسلہ ختم نہیں بلکہ بھتہ خوروں نے لوگوں کی زندگی کو اجیرن کر رکھا ہے-
جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنے پیاروں کو روٹی مہیا کرنے والے ظلم کا شکار ہیں –اگر وہ ان کو بھتہ نہیں دیتے تو بے دریغ گولیاں ان کس سینے میں اتار دی جاتی ہیں لوگوں کی عزتیں محفوظ نہ جانیں اور نہ ہی مال !! دن دھاڑے قتل اور ڈکیتی کی وارداتوں نے اس شہر کو اب دنیا کے خطرناک شہروں مین شامل کر دیا ہے وقت کی اس دوڑ میں جہاں دوسرے ممالک ترقی مین آگے نکل گئے
Law
ھمارا یہ شہر بدامنی میں آگے نکل گیا – کوئی قانون نہیں کوئی انصاف نہیں طاقتور طبقہ قانون کو ھاتھ میں لئے ہوئے ہے زندگی کی رنگینیوں سے بھرپور یہ شہر جنگ وجدل کا میدان بن چکاہے کوئی ہے جو اس شہرقائد کے حالات بدل کر اسے امن کا گہوارہ بنا دے! کیا کبھی ھم اس شہر کو پھر روشنینیوں کا شہر کہہ سکیں گے –