تحریر : قادر خان یوسف زئی کراچی قومی انتخابات کے حوالے سے سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے کراچی کے سیاسی خلا کو پُر کرنے کے لیے عام انتخابات سے قبل کوششیں شروع کردی ہیں ۔ تاہم اس سلسلے میں سب سے اہم وجہ متحدہ قومی موومنٹ کی تقسیم در تقسیم در تقسیم ہونا بتایا جاتا ہے۔متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان اختلافات کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن تمام سیاسی جماعتوں سے بہتر میڈیا منجمنٹ کرنے کے دعوی کرنے والی جماعت خود میڈیا کے زیادہ استعمال کی وجہ سے افراتفری کا شکار ہوگئی ہے۔ ایم کیو ایم نے بارہ مئی کے کراچی سانحے کے بعد ہونے والی تنقید کے سدباب کیلئے اپنی جماعت کو میڈیا منجمنٹ کے حوالے سے منظم کیا تھا کیونکہ میڈیا میں ایم کیو ایم کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایاجارہا تھا۔ کئی طریقے اختیارکرنے کے بعد بالاآخر میڈیا ایم کیو ایم کی مکمل گرفت میں آگیا اور کراچی کی اس جماعت نے تمام میڈیا ہائوسز کے کرنٹ افیئر میں چلنے والے پروگراموں میں بھی براہ راست مداخلت شروع کردی تھی ۔ کراچی میں تشدد کے خطرناک رجحان کی وجہ سے ممکن نہیںتھا کہ ایم کیو ایم کے کسی حکم کی سرتابی کی جاتی اس لئے ایم کیو ایم نے میڈیا کو ایک موثرہتھیار کی صورت میں استعمال کیا ۔ نائن زیرو کی دعوت کے موقع پر ایم کیو ایم کے مرکزی اراکین اور شعبے جات کے انچارج جب مہمانوں کو اپنے متحرک شعبے جات دکھاتے تو اس میں بطور خاص وزٹ کرنے والے مہمان یا وفود کی خواہش ہوتی کہ وہ ایم کیو ایم کے میڈیا سیل کا وزٹ بھی کریں اور ان کے کام کا طریقہ بھی دیکھیں تاکہ وہ جان سکیں کہ ایم کیو ایم میڈیا میں اتنی متحرک کیونکر ہے۔
ایم کیو ایم تین اہم شعبوں کو لازمی دکھایا کرتی تھی جس میں میڈیا ، و سوشل میڈیا کے شعبہ ، جس لسانی زبان کا شعبہ جس مہمان کو بلاتا اس شعبہ میں مرکزی اراکین کا تعارف اور پھر مختلف آپریشن اور گروپوں کے درمیان ہلاک ہونے والوں کے نام سے بنایا گیا شعبہ لازماََ دکھایا جاتا ۔ جس میں ہلاک ہونے والے کارکنان ذمے داران کی تصاویر اور پوری تاریخ کو پمفلٹ اور تصاویر کی صورت میں گیلری میں محفوظ کیا گیا تھا ۔ میڈیا و سوشل میڈیا میں صحافیوں کو اپنی کارکردگی کے حوالے سے متاثر کرنے کے لئے ٹکرز چلانے کا عملی مظاہرہ بھی کیا جاتا تھا جس میں وفود میڈیا سیل میں ہی ہوتے اور شعبہ میں موجود افراد الیکڑونک میڈیا میں چند منٹ میں ہی ٹکرز چلا کر وفود کو حیران کردیا کرتے تھے ۔ اسی طرح عوامی مسائل کمیٹی میں اراکین اسمبلی یا ان کی کوآرڈی نیٹر عوامی مسائل کو سننے و حل کرنے کے لئے روزانہ کی بنیاد پر شام سے رات گئے لازمی موجود ہوتے اور خورشید میموریل ہال میں مختص کئے گئے اوقات کے مطابق عوامی مسائل کو دیکھا کرتے تھے۔
خورشید میموریل تین منزلوں پر مشتمل ہے جس میں تمام علاقائی شعبہ جات سمیت تنظیمی حوالے سے ایک مضبوط و چوبیس گھنٹوں چلنے والے تین شفٹوں پر مشتمل شعبہ جات کام کرتے تھے ۔ ایک منظم جماعت میں عسکری ونگ کے حوالے سے کراچی تنظیمی کمیٹی کے علاوہ سیکٹرز کے اراکین نے بھی اپنی گروپ بندیاں کیں ہوئیں تھی ۔ جس میں کراچی کے وسائل پر جتنا ہوسکتا اپنا حصہ حاصل کیا کرتے تھے ۔ تاہم یہ ایک الگ بحث ہے ۔ لیکن ایم کیو ایم کی تقسیم در تقسیم در تقسیم ہونے کی اصل وجہ یہی رہی ہے کہ غریب ، متوسط اور نچلے طبقے کی نمائندگی کے دعوے دار تمام تر متنازع معاملات کے باوجود کراچی میں بلا شرکت غیرے 70سے زائد حصے کی ایک بڑی اسٹیک ہولڈر تنظیم رہی ۔ لیکن عدم برداشت اور تشدد کی پالیسی کی وجہ سے کراچی و حیدرآباد میں رہنے والی تمام لسانیوں اکائیوں سے ٹکرائو کی پالیسی کو اختیار کی اور جوابی ردعمل میں کراچی کی سیاست میں اتنا تشدد داخل ہوگیا کہ کوئی بھی سیاسی جماعت طاقت کے استعمال کرنے سے اپنے کارکنان کو روک نہیں سکی ۔ جس کے نتیجے میں کراچی پاکستان کے دیگر شہریوں کے لئے نو گو ایریا بنتا چلا گیا ۔ آج ایم کیو ایم میڈیا میں پھیلائے ہوئے اپنے جال میں خود پھنس چکی ہے۔
ایک چھوٹا اندرونی مسئلہ جس طرح میڈیا میں لایا گیا اور میڈیا سے وابستہ صحافیوں کو دن رات ، صبح دوپہر کسی بھی وقت شارٹ نوٹس پر اپنی اندرونی اختلافات کی داستانیں سنائی جانے لگی اور شکوہ و جواب شکوہ کا ایک ایسا دور شروع ہوا کہ میڈیا نے ان کے چھوٹے اختلافات کو اپنی ریٹنگ کے لئے بھرپور طریقے سے استعمال کیا اور کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ معاملات کسی نہج پر پہنچنے والے ہوتے کسی نہ کسی نیوز چینل کا صحافی ‘ شرلی ‘ چھوڑ دیتا اور پھر عدم برداشت کے پرچارک وہی کرتے جس کی توقع کی جاسکتی تھی ۔ ایم کیو ایم کی موجودہ سیاست کے حوالے سے مختلف مرکزی عہدے داروں ، کارکنان اور ایم کیو ایم و سپورٹرز سے راقم نے مختلف معاملات پر کھل کر تبادلہ خیال کیا۔تنظیم کے ذمے داروں نے تو آف دی ریکارڈ بات کرتے ہوئے محتاط رویہ اختیار کیا لیکن جب عوام راقم نے رابطہ کیا تو کم و بیش عوامی رائے میں انتہائی مایوسی کی لہر و غصہ دیکھا۔ان تمام معا ملات کو پاک سر زمین پارٹی نے پس پشت و پھر منظر عام پر آکر اپنے حق میں لانے کی کوشش کی۔ لیکن کراچی کی عوام ( اردو اسپکنگ ایم کیو ایم سپورٹرز) نے مثبت رویئے کا اظہار نہیں کیا ۔ایم کیو ایم کے یوم تاسیس کے موقع پر جو دوریاں دیکھنے کو ملی وہ کراچی میں ایم کیو ایم کے سپورٹرز کے لئے دکھ کا سبب بنا تو دوسری جانب دیگر سیاسی جماعتوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ سندھ کی قوم پرست عوام نے سندھ کی تقسیم کے حوالے سے ایم کیو ایم سے سخت بیزاری کا اظہار کیا اور ماضی میں باربار سندھ کی تقسیم میں جنوبی صوبہ ، کراچی صوبہ ، سندھ ون و ٹو جیسے فارمولوں کے بعد سندھ قوم پرست عوام نے ایم کیو ایم میں جو تھوڑی بہت شمولیت اختیار کی تھی اس سے بھی جان چھڑائی ، راقم نے جب سندھ کے قوم پرستوں سے بات ہوئی تو انہوں نے اپنے غصے کا اظہار کیا کہ ایم کیو ایم میں شمولیت شہری حقوق کے حصول کے لئے کی تھی ۔ سندھ دھرتی کی تقسیم کے لئے نہیں کی تھی۔
اسی طرح موجودہ ایم کیو ایم کے دونوں دھڑوں میں پختون قومیت سے وابستہ پہلے ہی مختصراََ ترین تعداد تھی ۔ انہوں نے ان گروپ بندیوں کے بعد عافیت جانی اور فوری طور پر بانی ایم کیو ایم کی ملک دشمن تقریر کے بعد علیحدگی اختیار کرلی اور پی پی پی ، پی ٹی آئی جوائن کرلی ، موجود ہ دونوں گروپوں میں پختون قومیت سے تعلق رکھنے والے پانچ افراد سے زیادہ افراد نہیں ہونگے ، جس میں بلدیہ اعظمیٰ کے قائد حزب اختلاف ، رابطہ کمیٹی کے رکن اور پختون ،ہزارہ کمیٹی کے ایک انچارج اور صوبائی اسمبلی کے سابق امیدوارکے علاوہ ہمدردوں کی تعداد بھی تقریباََ ختم ہوچکی ہے ، کیونکہ ایم کیو ایم ، متحدہ کے دور سے واپس مہاجر قومیت کے دور میں لوٹ آئی ہے ۔ جس کی وجہ سے دیگر قومیتوں کی بڑی تعداد نے ایم کیو ایم سے علیحدگی اختیار کرکے دوسری جماعتوں میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ ایم کیو ایم کے متبادل کے طور پر پاک سر زمین پارٹی نے جگہ بنانے کی کوشش کی ہے ، لیکن ایم کیو ایم کے ایسے کارکنان و ذمے داران جن کا ماضی داغ دار ہے ، انہیں قبول کرنے اور قانون سے تحفظ دینے کے عمل نے مصطفی کمال کی ساکھ کو متاثر کیا۔ اپنے ابتدائی تین مہینوں میں مہاجر قومیت کے نام پر کھل کر سیاست کی جس میں ان کا موقف یہ تھا کہ پہلے مہاجر قومیت کو پاک سرزمین پارٹی میں توجہ دی جائے تاکہ جماعت مضبوط ہوسکے ۔ ذرائع کے مطابق ابتدائی طور پر پاک سرزمین پارٹی کا انتخابی نشان ، پرچم سب کچھ اخفا رکھا گیا تاکہ وہ دیگر قومیتوں میں جگہ بنا سکے ، اس عمل میں کچھ کامیابی بھی ہوئی لیکن مایوسی کا عمل اُس وقت زیادہ سامنے آیا جب مصطفی کمال اور انیس قائم خانی نے ایم کیو ایم کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش میں میڈیا میں کچھ زیادہ بول گئے ۔
میڈیا ایم کیو ایم کے لئے ایک ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اسی میڈیا نے تمام گروپوں کے اختلافات و مختلف بیانیہ عوام کے سامنے لاکر ایم کیو ایم کے تمام گروپوں کے لئے پریشانی پیدا کردی ۔ میڈیا کی وجہ سے بننے والے ایم کیو ایم کے رہنمائوں نے ٹاک شوز و بی پیرز میں جذبات کا مظاہرہ کیا اور بالاآخر سینیٹ میں 50نشستیں رکھنے والی جماعت کا جو حال ہوا ۔ اُسے تمام دنیا نے مقام عبرت کے تناظر میں دیکھا ۔ خیال تھا کہ ایم کیو ایم نوشتہ دیوار پڑھ کر اپنے رویوں میں تبدیلی پیدا کرے گی لیکن یوم تاسیس کے موقع پر اپنے سپورٹرز میں بھی اختلافات کی بنیاد رکھ دی اور اب بتایا جارہا ہے کہ الیکشن کمیشن پارٹی کنوینر کے حوالے سے جو فیصلہ کرے گا اس کو قبول کرلیا جائے گا ۔ لیکن ایم کیو ایم کے موجودہ رویوں سے نظر نہیں آتا کہ عام انتخابات کے لئے یکسو ہوسکیں ۔ چونکہ قومی جماعتوں نے کراچی کی سیاست نے قدم رکھ دیا اور کراچی کی عوام کو لسانی دھارے سے نکالنے کے لئے دوبارہ موقع فراہم کیا ہے اس لئے غالب گمان ہے کہ عام انتخابات میں ایم کیو ایم کم بیک کرنے میں کم ازکم قومی اسمبلیوں کی سطح پر نقصان اٹھا سکتی ہے ۔ چونکہ ملکی سیاسی حالات ایک مخصوص رخ کی جانب گامزن ہیں اس لئے وفاقی بیانیہ میں ایک اپ سیٹ صورت حال پیدا کرنے کے لئے کراچی کی قومی اسمبلیاں کی نشستیں بھی سینیٹ کی نشستوں کی طرح غیر اطمینان بخش صورتحال کا منظر پیش کرسکتی ہے۔ ان تمام باتوں کی باوجود کراچی کی عوام کا اجتماعی بیانیہ حوصلہ افزا ہے کہ کراچی میں امن قائم ہوچکا ہے اس کو مستقل بنیادوں پر جاری رہنا چاہیے۔ لیاری میں گذشتہ دنوں تشدد کی ایک نئی لہر اٹھانے کی کوشش کی گئی لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں نے قربانی دیتے ہوئے متحرک ہونے کا ثبوت دیا ،ایم کیو ایم ہو یا تمام سیاسی جماعتیں ان سے کراچی کی عوام صرف ایک مطالبہ کرتی ہے کہ اپنی اندرو ن خانہ تنازعات کو دوبارہ کراچی کی سڑکوں میں نہ لائیں ۔ کراچی کو صرف امن کی ضرورت ہے ۔ عوام کی اکثریت کراچی کی زبوں حالی و ترقیاتی و بلدیاتی کاموں کے حوالے پریشان ضرور ہیں لیکن ان کی بنیادی اولیّن ضرورت کراچی کا امن ہے۔باقی سب ثانوی ہیں۔کراچی میں امن کی فاختہ نے بہت عرصے بعد گھونسلا بنا یا ہے ۔ امن کے لئے تمام قومیتوں کو امن کی فاختہ کے لئے اشد حفاظت کی ضرورت ہے۔