مشرف کے پاکستان آتے ہی اس کے ساتھ مختلف واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ ان واقعات سے ظلم کے شکار ہوئے بہت سے لوگوں کے دلوں کو ” اطمینان ” مل رہا ہے۔ کیونکہ سابقہ صدر جنرل پرویز مشرف کا احتساب شروع ہو چکا ہے۔ سُپریم کورٹ سے لیکر F.I.Aتک اس کے احتساب کرنے کے لیے اس کے ارد گرد منڈلا رہی ہیں۔ اور کوئی بھی انسان جس کے ساتھ ظلم ہوا ہو تو جب ظالم کو سزا ملتی ہے تو مظلوم دل وسکون محسوس کرتا ہے۔ اس کے ساتھ دنیا میں ہی انصاف ہوتا نظر آرہا ہے۔۔
ظالم دوسرے ظلم کرنے والے لوگوں کے لیے عبرت کا نشان بھی ہوتا ہے۔ کہ ظلم ہمیشہ زندہ نہیں رہتا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو ظالم کی رسی کو ڈھیلا چھوڑا ہوتا ہے ۔ پرور دگار جب چاہے اس کو کھینچ لے اور ظالم کو اس کے انجام تک پہنچا دے۔ یہ وہ جنرل مشرف ہے جس کو آج تک ”3جولائی2007” سے لال مسجد اپنے اندر ہونے والی قتل وغارت کا بدلہ لینے کے لیے پکار رہی ہے۔
جنرل مشرف ہے جس سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ماں اور بہن آج بھی عافیہ کو امریکہ کے حوالے کرنے کی اصل وجہ پوچھنے کے لیے بے بس ہے۔ یہ وہ مشرف ہے جس نے اپنے دور حکومت میں سر بلند کرنے والے ججز کو گھربھجوا ڈالا۔ یہ وہ جنرل مشرف ہے۔ جس سے آج تک ” ڈاکٹر عبدالقدیر خان” اپنی نظر بندی کا جواب طلب کرتاہے۔ اور مشرف صاحب ان سب باتوںکے جواب میں ایک ہی بات کہتے ہیں کہ میں تو سید ہیں۔ میرا سے زیادہ دین سمجھنے والا کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ میں تو بارہا مدینہ منورہ گیا ۔ بارہا میرے لیے خانہ کعبہ کا دروازہ کھولا گیا۔
اس پر اللہ تعالی کا فرمان ہے جس کا مفوم بیان کروں گا۔ کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اپنے متعلق پاک بازی کو دعوی مت کرو اللہ خوب جانتا ہے کہ کون پاکباز ہے تو پھر مشرف صاحب ایک کس طرح اپنی پاک بازی دعوی کر سکتے ہیں۔ یہ وہی مشرف صاحب ہے جنہوں نے اکتوبر 1998میں ایک بہترین جمہوری حکومت کو ختم کر دیا۔ اس وقت کے وزیر اعظم کو جیل میں ڈال دیا۔ بلکہ اس وزیر اعظم سمیت اس کے بہت سے ساتھیوں کو چھوٹی چھوٹی کوٹھریوں میں بند کر دیا ان پر ظلم و ستم کیا گیا اور بالا آخر ان کو ملک بدر کر دیا گیا۔
نواز شریف کے والد کے انتقال پر ان کو پاکستان نہیں آنے دیا گیا۔ مشرف صاحب اتنا بڑا ظلم کہ کسی شخص کو اس کے والد کی آخری رسومات ادا کرنے پر بھی پابندی لگا دی۔اور مسلم لیگ ”ق” کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کہتے ہیں کہ مشرف کے خیلاف غداری کے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں ۔ یہ مشرف صاحب کی ذات کا مسئلہ نہیں بلکیہ پنڈور بکس کھل جائے گا۔ ہم چوہدری شجاعت صاحب کے اس بیان کو یہ کہتے ہیں کہ اگر مشر ف کے ساتھ احتساب کیا گیا تو ملک کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
Pakistan People
اگر پاکستانی عوام ہمیشہ یہی سوچتی رہی تو جمہوری حکومتوں کو ختم کرنا پاکستان کو رواج بن جائے گا۔ اور ادارے بے بس ہو جائے گے۔ بلکہ یہ احتساب تو 58برس پہلے لگائے گئے جنرل ایوب کے مارشل لاء لگاتے ساتھ ہی ہو گیا ہوتا تو یہ دن نا آتے۔ اگر جنرل ضیاء الاحق کا احتساب عدالتوں میں ہو گیا ہوتا تو شاید مشرف ایسی غلطیاں نہ کرتا ۔ وہ جنرل ضیاء الحق جس نے بھٹو کو ایک ناجائز مقدمے میں پھانسی دلوا دی تھی لیکن جس کی لاٹھی اس کی بھینس اس وقت بھی کسی نے ضیاء الحق کے آگے سر نہ آٹھایا۔
نہ عدلیہ نے اور نہ کسی سولین نے سوائے (جنرل محمد اقبال خان)نے سب نے ضیاء الحق کا حکم نہ مانا ۔ جنرل محمد اقبال خان وہ واحد شخص تھے جنہوں نے ضیا ء الحق سے کہا کہ تم غلط کر رہے ہون۔ یہی کارنامہ مشرف نے سرانجام دیا ہے۔ جس نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ اس وقت مشرف کو کسی چاہنے والے نے نہیں کہا کہ جناب نواز شریف کی حکومت کا تختا نہیں الٹانا چاہیے۔
عافیہ صدیقی کو ڈالرئوں کے عوض امریکہ کے حوالہ نہ کیا جائے ۔امریکہ سے ڈالروں کے عوض ڈرون حمولوں کا معائدہ نہ کیا جائے ۔ امریکہ کی ڈالروں کے عوض اپنے بحری اڈے امریکہ کو نہ دیے جائیں۔ان سے بھی ملک تباہ ہو سکتا ہے۔ ان سے ملک کی معیشت تباہ ہو سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے اس پر عوام آپ کو کبھی معاف نہ کریں۔
ججوں کو گھر نہ بھیجیں۔ بلکہ اس وقت کو چوہدری شجاعت حسین خوش اسلوبی سے مشرف کو وردی میں صدر قبول کر رے تھے۔ اب ایک امر یزید اور ظالم ڈکٹیٹر کو اپنے احتساب کے لیے عدالت کے سامنے پیش کیا جارہا ہے۔ تو کچھ لوگوں کو ان سے ہمدردی یاد آگئی ہے ۔ لیکن جنرل مشرف کا احتساب ضروری ہے۔ فرمان الہیٰ جس کا مفہوم ہے ظالموں کے لیے اس نے بڑا درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔