پاکستان کا سیاسی منظرنامہ کچھ بھی ہو، اور اس کے نتیجے میں کوئی بھی جیتے یا ہارے مگر ایک بات اہم ہے کہ انتخابات اور بس انتخابات ہی پاکستان کو بدل سکتے ہیں۔ جمہوریت اور صرف جمہوریت ہی سے پاکستان کی بقاء منسلک ہے۔
Asma Shirazi
گونگے، بہرے اور اندھے معاشرے مکمل دلوں اور ذہنوں پر پختہ مہریں ہی لگاتے ہیں۔ بے آواز صدائیں، بے ربط آوازیں ادھورے ساز ہی چھیڑتی ہیں جس سے صرف شور ہی جنم لیتا ہے موسیقی نہیں۔ بے ساحل لہریں اشتعال ہی پیدا کرتی ہیں اور بے معنی الفاظ صرف واویلا۔
میرے صحافتی کریئر کے آغاز کے ساتھ ہی پہلا تجربہ ریفرنڈم کور کرنے کا ہوا اور پی ٹی وی کی جانب سے میری ڈیوٹی نارووال میں لگائی گئی، موبائل فونز بہت عام نہیں تھے، سو سوال پیدا ہوا کہ وہاں جا کر رپورٹ کیسے کریں گے؟
پی ٹی وی انتظامیہ نے بتایا کہ جب آپ نارووال پہنچیں تو متعلقہ ڈی سی کے دفتر جایے گا اور اُن کی ٹیلی فون لائن استعمال کیجیے گا، وہ آپ کی ہر طرح کی مدد بھی فرمائیں گے۔
قصہ مختصر چھ گھنٹے کی مسافت طے کرتے ہوئے لگ بھگ صبح سویرے نارووال پہنچی تو دیکھا کہ گوالے بالٹیوں میں دودھ ڈال کر اپنی منزل کو رواں دواں تھے اور کسان اپنے کام کر رہے تھے، کوئی غیر معمولی ہِل جُل نہ تھی، ڈی سی آفس پہنچتے پہنچتے دن کے دس بج چکے تھے، ہمیں پولنگ سٹیشن پر لیجایا گیا تاکہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں کہ عوام جنرل مشرف کی بادشاہی پر مہریں لگانے نکل چکے ہیں۔
مگر جب پولنگ سٹیشن پر پہنچی تو وہاں کوئی قابل دید منظر نہ تھا، اِکا دُکا ووٹر اس سارے عمل سے شاید بیزار ووٹ ڈال رہے تھے۔ چونکہ پی ٹی وی ہیڈ کوارٹر میں اطلاع جا چکی تھی کہ میں ڈی سی آفس پہنچ چکی ہوں اور پولنگ سٹیشن کا دورہ کر کے آ چکی ہوں اس لیے اگر نیوز میں میری رپورٹ چلانی ہے تو میں موجود ہوں۔
جواب ملا کہ آپ کی لائن تھرو کی جا رہی ہے، جس کے بعد پہلا سوال تجزیے کی شکل میں کیا گیا جس کا لُب لباب یہ تھا کہ لوگ جوق در جوق جنرل مُشرف کو ووٹ دے رہے ہیں، لمبی قطاریں لگی ہیں اور نارووال سے لائن پر موجود ہیں ہماری نمائندہ، آیے اُن سے بات کرتے ہیں۔
اور یوں اپنی پہلی صحافتی ملازمت میں زندگی میں پہلی بار میں نے ایک لمحے کو سوچا کہ کیا میں کسی کی خواہش کو خبر بناؤں یا وہ بتاؤں جو میں نے دیکھا اور سچ کہہ دوں۔
بس ایک لمحہ تھا جس کے بعد میں نے بولنا شروع کیا کہ یہاں تو لوگ اپنے کاموں میں مصروف اور کوئی قطار نظر نہیں آ رہی بلکہ لوگوں کو زبردستی۔۔۔۔۔ اور اس کے بعد میرے کان میں ٹوں ٹوں ٹوں کی آواز آنا شروع ہو گئی۔ اور لائن کاٹ دی گئی تھی۔
میڈیا کسی بھی معاشرے کی آنکھ، کان اور زبان ہوتے ہیں، عوام اور ریاست کے بیچ پُل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اُن پر اثرانداز ہونا اور اُن کے منہ میں اپنے لفظ ڈالنے سے فقط حبس بڑھے گا اور ایسا نہ ہو کہ سانس بھی لینا دو بھر ہوجائے۔
ہم آگے کی بجائے پیچھے کا سفر نہیں کر سکتے۔ ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ آزاد دنیا کا باسی کیسے بننا ہے، ریمورٹ کنٹرول جمہوریت، ریمورٹ کنٹرول سیاست اور ریمورٹ کنٹرول صحافت اب نہیں چل سکتی۔
لائن مت کاٹیں، سننے کا حوصلہ پیدا کریں تاکہ جب آپ کی آواز دنیا تک پہچانے کا وقت آئے تو لائن نہ کٹے۔