مشرقی لداخ میں چین و بھارتی افواج 1962 کے بعد آمنے سامنے ہیں، سرحد پر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے، تاہم وائرل ہونے والی ویڈیوز میں بھارتی سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کو چینی محافظوں کے مقابل بے بس دیکھا جاسکتا ہے۔دونوں ممالک کے اہلکاروں کے درمیان ہاتھا پائی و گالم گلوچ اور چھوٹی موٹی جھڑپوں کے متعدد واقعات ہوچکے ہیں، جس پر ہمیشہ بھارت کو ہی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔مشرقی لداخ میں سرحدی تعطل ختم کرنے کے لئے بھارت کی فوجی قیادت کی کوششیں ناکام ہوچکی ہیں اور کئی ہفتوں سے جاری اس کشیدگی کو ختم کرنے کے لئے سفارتی مذاکرات کے نتائج کا انتظار کیا جارہا ہے۔چینی وزرات خارجہ کے ترجمان کہہ چکے ہیں کہ لائن آف ایکچلول کنٹرول (ایل اے سی)پر سفارتی و فوجی سطح پر بات چیت چل رہی ہے اور فریقین مسئلے کو حل کرسکتے ہیں۔
انہوں نے سرحد کی صورتحال کو مستحکم اور قابو میں بتایا۔چین نے بھارت کی بڑھتی جارحیت و عالمی قوانین کے خلاف ورزیو ں پر سلامتی کونسل کو آگاہ کیا لیکن مودی سرکار کے عزائم ناقابل برداشت حد تک بڑھتے جارہے ہیں، مشرقی لداخ سیکٹر میں بھارت کی طرف سے ایک سڑک و پل کی تعمیر پر چین کو اعتراض ہے، چین کا واضح موقف ہے کہ تعمیر متنازع علاقے میں ہو رہی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان 3500کلو میٹر کی مستقل سرحد بندی کا تنازع چھ دہائیوں سے حل طلب ہے، مودی سرکار کئی برسوں سے لداخ کے بنیادی دھانچے کو تبدیل کررہا ہے جس کی چین مخالفت کرتا رہا ہے۔ واضح رہے کہ لائن آف ایکچلول کنٹرول پر دونوں ممالک کے درمیان 5اور 9مئی کو ہاتھا پائی و مارپیٹ ہوئی تھی، جس کے بعد تنازع بڑھتا چلا گیا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ چینی فوج بھارتی سرحد کے اندر آ گئی ہے اور سرحد پر کم از کم پانچ ہزار چینی جوان تعینات ہیں۔ بھارتی فوج چینی اہلکارو ں کو واپس پرانی پوزیشن پر لے جانے میں ناکام ہوچکی ہیں، بھارتی ناجائز تعمیرات پر چین کے اعتراض کے بعد صورتحال اب سنگین کشیدگی میں تبدیل ہوچکی ہے۔
چین نے بھارت کو اس تناؤ کی وجہ قرار دیتے ہوئے انڈیا کو دریائے گالوان (وادی) کے خطے میں کشیدگی کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔چینی فوج کا کہنا ہے کہ ”انڈیا نے اس علاقے میں دفاع سے متعلق غیر قانونی تعمیرات کی ہیں۔ اس کی وجہ سے چین کو وہاں فوجی تعیناتی میں اضافہ کرنا پڑا ہے۔انڈیا نے اس کشیدگی کی ابتدا کی ہے۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ یہان ڈوکلام جیسی صورتحال پیدا نہیں ہوگی جیسا کہ2017 میں ڈوکلام میں ہوا تھا۔ انڈیا کووڈ 19 کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی پریشانیوں سے دوچار ہے اور اس نے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے گالوان میں تناؤ پیدا کیا“۔ذرائع کے مطابق مشرقی لداخ پر چینی فوج اپنی پوزیشن کو مضبوط بنا چکی اور قیاس کیا جارہا ہے کہ ان کا واپس جانے کا کوئی ارادہ نہیں۔ دونوں ممالک1962والی صورتحال کا شکار ہیں اور کسی بھی وقت جنگ چھڑ سکتی ہے۔
عارضی سرحد یعنی لائن آف ایکچول کنٹرول (ایل اے سی) پر دونوں ملکوں نے اپنی فورسز میں اضافہ کر دیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق دونوں طرف سے بھاری ہتھیاروں کے علاوہ توپیں، گاڑیاں اور بکتر بند حفاظتی گاڑیاں بھی حرکت کرتی دیکھی گئی ہیں۔۔ دوسری جانب امریکی صدر نے رسماََ دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کی پیش کش کی جو ہمیشہ کی طرح بھارت نے مسترد کردی، تاہم دوسری جانب امریکا نے حسب روایت بھارت کی جارحانہ و عالمی قوانین کی خلاف ورزیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے دیرینہ تجارتی مخالف چین کے خلاف بھی بیانات جاری کئے ہیں۔ امریکا نے بھارت کی جانب سے نہتے کشمیریوں پر مسلط 9لاکھ سے زائد جارح فوج کی ظلم و زیادتیوں پر کسی بھی قسم کے اقدام سے گریز کی روایت پر عمل جاری رکھا ہوا ہے۔
1963پاک چائنہ باؤنڈری ایگریمنٹ کے تحت پاکستان نے کشمیر کا38ہزار مربو کلومیٹرعلاقہ2مارچ 1963کو چین کے دیاتھاجبکہ چین نے 1942سے5180کلومیٹر کا رقبہ پاکستا ن کے حوالے کردیا تھا، اسی معاہدے کے تحت کے ٹو کے چوٹی پر پاکستا ن کا حق تسلیم کیا گیا۔سرحدی امور طے کرنے والا یہ معاہدہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے، جس کے مطابق سرحد پر واقع دریا یا دروں کے عین نصف کو حد بندی کی لکیر قرار دیا گیا۔ بھارت کے اُس وقت کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کو یہ معاہدہ ایک آنکھ نہ بھایا اورپاک، چین تعلقات پر اپنی تشویش کا اظہار بھی کیا، یہی وہ بغض تھا جو قیام پاکستان کے بعد سے آج تک ہندو شدت پسندوں میں پایا جاتا ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر و لداخ میں مودی سرکار نے عددی اکثریت کے بل بوتے پر عالمی متنازع علاقے کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی سازش کی، چین نے پاکستان کے ساتھ مل کر سلامتی کونسل میں معاملہ اٹھایا، لیکن عالمی طاقتوں کے مفادات کے باعث مقبوضہ جموں و کشمیر و لداخ کی عوام کوحق خود اردایت دینے کی اقوام متحدہ کی قراردادوں سے مسلسل انحراف کیا جارہا ہے اور بھارت کی من مانیاں ناقابل برداشت ہوتی جا رہی ہیں۔واضح رہے کہ چین و پاکستان کے مابین تعلقات تاریخی ہیں اسی طرح 438کلو میٹر طویل سرحد دونوں ممالک کے درمیان اہم تاریخی حیثیت تسلیم کی جاتی ہے۔
پاک،چین تعلقات میں مضبوطی عالمی طاقتوں نظروں میں کھٹکتی رہتی ہے، بالخصوص امریکا نے سی پیک کے حوالے سے متنازع بیانات بھی دیئے اور پاک،چین تجارتی معاملات میں دخل اندازی کرتے ہوئے قرضوں سمیت داخلی معاملات میں بھی مداخلت کی۔ امریکا کی نائب سیکرٹری برائے جنوبی و سط ایشیائی ممالک آئی ایلس ویلز نے ایک تھنک ٹینک سے خطاب میں سی پیک پر تنقید کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ ان منصوبوں میں شفافیت نہیں اور پاکستان چین سے مہنگے قرضے لے رہا ہے جو ملکی قرضوں کا بوجھ بڑھائیں گے۔امریکی وازت خارجہ کی اعلیٰ عہدے دار نے مزید کہا کہ چینی پیسے پاکستان کی معاونت نہیں کر رہے بلکہ مہنگے قرضے ہیں جن سے پاکستان کی کمزور معیشت پر مزید بوجھ پڑے گا۔
دوسری جانب پاکستان میں تعینات چینی سفیر کا کہنا تھا کہ ایلس ویلز کے منفی بیان میں کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ نومبر 2019 والی تقریر ہے اور اس پرانی تکرار کو پاکستان اور چین دونوں مسترد کر چکے ہیں۔چینی سفارت خانے سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ امریکہ ابھی تک سی پیک پر اپنی بنائی ہوئی کہانی پر قائم ہے۔ بیان میں کہا گیا ’ہمیں امریکہ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر خوشی ہے، تاہم ہم سختی سے پاک چین تعلقات اور پاک چین اقتصادی راہ داری میں امریکی مداخلت کی سختی سے بھرپور مخالفت کرتے ہیں۔‘پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی امریکی بیانات کو سختی مسترد کرچکے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ”ہم سمجھتے ہیں کہ سی پیک ہماری معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ ’یہ گیم چینجر ہے اور یہ ہماری ترقی کے لیے ایک کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔‘شاہ محمود قریشی کا مزید کہنا تھا ’ہم تو یہ بھی چاہتے ہیں کہ سپیشل اکنامکس زون میں امریکہ سمیت دیگر ممالک بھی سرمایہ کاری کریں۔“