تحریر : پروفیسر رفعت مظہر ہم ”ایویں خامخوا” میاں نواز شریف کو ”اصلی تے وَڈا” شیر سمجھتے رہے اور نواز لیگ کو شیروں کی جماعت لیکن وقت نے ثابت کیا کہ اُس کے اندر تو شیروں والی کوئی بات ہی نہیں ۔بھلا شیر بھی کسی کی سُنتا اور مانتا ہے؟ لیکن یہاں تو یہ عالم ہے کہ میاں صاحب اپنے پورے خاندان کو لے کر درِاحتساب پر حاضر ہو گئے اور چُوں تک نہ کی ۔اب بھی چار مرتبہ پیشی بھگتنے والے حسین نواز کہتے ہیں کہ جے آئی ٹی جتنی مرتبہ بلائے گی ،اُتنی مرتبہ حاضر ہوں گا۔ یہ ”رسمِ شیری ”تو ہرگز نہیں ۔ شیر تو بس دھاڑتا اور پھاڑتا ہے۔ ہمیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے نون لیگ نہ ہوئی ،بکریوں کا ریوڑ ہوئی جس کی ”معصوم بکریاں” ایک ایک کر کے قُربان کی جا رہی ہیں ،کبھی اسٹیبلشمنٹ کے درِدولت پر اور کبھی درِاحتساب پر۔ پَس ثابت یہ ہوا کہ شیر کا انتخابی نشان رکھ لینے سے کوئی شیر نہیں بن جاتا ۔ پھر ہمارے ارسطوانہ ذہن نے سوچا کہ اگر نوازلیگ نہیں تو پھر کون؟۔ ہماری نگاہِ انتخاب ٹھَک سے بلوچ سردار آصف زرداری پر پڑی کیونکہ بڑھکیں شڑکیں تو وہ بھی بہت لگاتے ہیں ۔بھلا کسی میں اتنی جرأت ہو سکتی ہے کہ وہ فوج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی دھمکی دے ۔یہ کام سرِعام بلوچ سردار نے کیا اور ہم داد و تحسین کے ڈونگرے برسانے لگے لیکن مآل اِس کا یہ ہواکہ ہمیں ہی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اِس بڑھک کے فوراََ بعد بلوچ سردار دُم دَبا کر بھاگ لیے اور ہم مُنہ تکتے رہ گئے۔ شیر کبھی بھاگا نہیں کرتے لیکن وقت نے ثابت کیا کہ ہمارے بلوچ سردار تو ”لُٹّو تے پھُٹّو” کی عملی تصویر ہیںاِس لیے ہم نے انتہائی مایوسی کے عالم میں بلوچ سردار کی ”شیری” کو بھی قلم زَد کر دیا۔
کبھی کبھی یہ خیال آتا ہے کہ ” اصلی تے وَڈاشیر” تو پرویز مشرف تھا جس نے ہواؤں میں ہوتے ہوئے بھی ملک پر قبضہ کر لیا اور طیارہ سازش کیس میں پورے میاں خاندان کو سعودی عرب کی راہ دکھائی ۔شاید اُس وقت اُس کے ذہن میں یہ خیال ہو کہ میاں خاندان اللہ کے گھر میں جا کر اللہ اللہ کرے اور وہ حکومت۔ اُسے یوں بھی شیر کہنے کو جی چاہتا تھا کہ اُس کی ایک خواہش پر ہماری محترم عدلیہ نے بِن مانگے اُس کا تین سال کے لیے حقِ حکمرانی تسلیم کر لیا۔ ہم اُن جج صاحبان کو دو وجوہات کی بنا پر ”پی سی او ججز” نہیں کہہ سکتے ۔ ایک وجہ تو یہ کہ توہینِ عدالت کا خطرہ ہے ،بھلا ڈھلتی عمر کے اِس حصّے میں جیل کون جائے۔ دوسری وجہ یہ کہ شاید یہ بھی کوئی ”نظریۂ ضرورت” ہی ہو اور ہم ، آپ سبھی جانتے ہیں کہ نظریۂ ضرورت تو پیدا ہی ملک و قوم کی بہتری کے لیے کیا جاتا ہے،اِس لیے اگر ہماری انتہائی محترم عدلیہ نے پی سی او کے تحت حلف اٹھا لیا تو کیا بُرا کیا۔ پرویز مشرف کے اور بھی بہت سے کارہائے نمایاں ہیں جن کی اِس ننھے مُنے کالم میں گنجائش ہر گِز نہیں لیکن مسٔلہ تو وہاں آن پڑا جب بَبر شیر (امریکہ) کی ایک دھاڑ پر ہمارا شیر بیچارہ بکری بَن گیا ۔ہم جو کپتان صاحب کے ساتھ مِل کر پرویز مشرف کی عظمتوں کے ترانے گایا کرتے تھے ،اتنے شرمندہ ہوئے کہ کسی کو بھی شیر کہنے سے توبہ کر لی ۔ہمیں سمجھانے کی بہت کوشش کی گئی کہ پرویز مشرف نے تو محض پاکستان بچانے کی خاطر وہ کچھ بھی مان لیا جس کا امریکہ نے تقاضہ ہی نہیں کیا تھا۔ اُس کا تو نعرہ ہی ”سب سے پہلے پاکستان” تھا جس کا مطلب قومی سلامتی کو اولیت تھی لیکن ہم نے کہا کہ نہ بابا نہ ! ”سب سے پہلے پاکستان” کا مطلب یہ تھا کہ پاکستان کی عزت و وقار کو سب سے پہلے داؤ پر لگا کر طبلہ بجایا جائے اور سارنگی پر ملہار کی تانیں اُڑائی جائیں ۔ اِس لیے پرویز مشرف شیر تو کیا ،ہم اُسے گیدڑ بھی کہنے کو تیار نہیں۔
ہماری کسی کو شیر کہنے سے توبہ اُس وقت ”چُوراچُور” ہوگئی جب 2011ء میں مینارِ پاکستان لاہور کے سائے تلے ایک طوفان اُٹھا ،نام اُس کا ”سونامی” رکھا گیا۔ قیادت کپتان صاحب کے حصّے میں آئی اور دَست و بازو شیخ رشید ،شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین جیسے ”دَبنگ” قرار پائے۔ یہ وہ وقت تھا جب کپتان صاحب کے خلاف قلم اُٹھاتے ہوئے بھی ڈَر لگتا تھا اور کوئی ایک لکھاری بھی ایسا نہیں تھا جس نے کپتان صاحب کے خلاف کچھ لکھنے کی ہمت کی ہو ۔اگر کسی نے اپنا ”ساڑاپھوکنے” کی کوشش بھی کی تو ایسے الفاظ میں ،جو شہد میں بھگو کر لکھے گئے ۔تب ہم نے سوچا کہ اصلی شیر تو ہمارے کپتان صاحب ہی ہیں ۔ہم ”ایویںای” اِدھر اُدھر تلاش میں مارے مارے پھرتے رہے ۔یہ تو وہی بات ہوئی ”بچہ بگل میں ،ڈھنڈورا شہر میں”۔ بہرحال ہماری تلاش تمام ہوئی اور ہم آج بھی کپتان صاحب کو ”اصلی تے وَڈا” شیر سمجھتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ حاسد اُنہیں ضِّدی ،ہَٹ دھرم، خود پسند اور نرگسیت کا شکار سمجھتے ہیں۔
الزام تو اُن کی ذات پر اور بھی کئی لگتے ہیں لیکن ہم نے غیرپارلیمانی گفتگو سے ہمیشہ گریز ہی کیا ہے ۔ہمیں اُن کی جو ادا پسند ہے وہ ”میں نہ مانوں” کی رَٹ ہے ۔بھئی ! بھلا وہ شیر ہی کیا جو مان جائے ۔شیر مانتا نہیں ،منواتا ہے۔ اب یہی دیکھ لیجئے کہ پاناما لیکس کا فیصلہ آیا تو نوازلیگ نے خوشیاں منائیں ،مٹھائیاں تقسیم کیں ،اکثریتی فیصلے کی تحسین کی اور ایک دوسرے کو مبارک باد دی لیکن چونکہ ہمارے ”شیر” کو یہ فیصلہ پسند نہیںآیا اِس لیے وہ جسٹس کھوسہ کے اختلافی نوٹ کو لے کر باہر نکل پڑا اور اُن کے ریمارکس کو گلی گلی عام کر دیا۔ کپتان جہاں بھی گیا ،لوگوں کو ”گاڈ فادر” نامی ناول کے قصے سناتا اور میاں نواز شریف کو جھوٹا قرار دیتا رہا ۔پھر عدلیہ کو مجبوراََ یہ کہنا پڑا کہ فیصلہ اکثریتی ہوتا ہے ،اختلافی نوٹ کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ بے خوف کپتان پر اِس کا ”کَکھ” اثر نہ ہوا اور وہ آج بھی اپنی بات پر قائم ہے۔البتہ اُس نے گاڈ فادر کے حوالے دینا اُس وقت بند کیے جب ایک اور محترم جج نے ”سِسلی مافیا” کا ذکر چھیڑ دیا۔ آجکل ہمارے کپتان صاحب لوگوں کو سِسلی مافیا کے قِصے سنا رہے ہیں۔
رہی بات جے آئی ٹی کو تسلیم نہ کرنے کی تو عرض ہے کہ کپتان صاحب نے پہلے یہ ضرور کہا تھا کہ جے آئی ٹی انصاف کرنے سے قاصر رہے گی ،اِس لیے اُنہوں نے جے آئی ٹی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا لیکن جب اُس نے دیکھا کہ یہ جے آئی ٹی تو میاں خاندان کے پیچھے بندوق تانے بھاگ رہی ہے تو کپتان نے اِس پر بھرپور اعتماد کا اظہار کرنے میں بھی دیر نہیں لگائی ۔اگر کوئی بَدبخت اِسے کپتان کا یو ٹَرن کہے ، تو کہتا پھرے ،ہمارے نزدیک اِس سے کپتان کی صحت پر کوئی اثر پڑتا ہے ، نہ ہماری صحت پر ۔صاف نظر آ رہا ہے کہ جے آئی ٹی کا فیصلہ میاں خاندان کے خلاف ”آوے ای آوے” اور وہ اُن کوپھڑکاوے ای پھڑکاوے”۔ لیکن اگر کل کلاں جے آئی ٹی اپنی تحقیقات میں میاں خاندان کو بے گناہ قرار دیتی ہے تو کیا کپتان صاحب کا یہ حق نہیں بنتا کہ وہ دھاڑتے اور یہ کہتے ہوئے باہر نکلیں کہ
ایسے دستور کو ، صبحِ بے نور کو میں نہیں مانتا ، میں نہیں جانتا
اب میرے قارئین فیصلہ خود ہی کر لیں کہ ہم اُسے ”شیر” کہیں جو ”رسمِ شیری” نبھاتے ہوئے ”میں نہ مانوں” کی رَٹ لگاتا ہے یا پھر اُسے جو اپنے سارے اختیارات کوتیاگ کر دَرِ احتساب پر حاضر ہو گیا۔