تحریر : انجینئر افتخار چودھری خبریہ ہے کہ جناب شیر ایک واری فیر نالائق قرار دیے گئے ہیں۔محلے باغبانپورے کا کلو جٹ تین بار فیل ہوا تھا یہ تو اس سے بھی گئے گزرے ہیں جو گلی برخوردار والی کے اکرم عرف کلو جٹ کو بھی پیچھے چھوڑ گئے بہادری اور بے وقوفی دونوں بہنیں ہیں اپنے اپنے قبیلے میں معتبر بھی ہیں بے وقوفی کے زمرے میں آنے والے واہ میاں کے نعرے لگا رہے ہیں اور جنہیں اللہ نے سمجھ دے رکھی ہے وہ اسے ان کی پے در پے غلطیوں کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔ بہادری کا راگ الاپنے والے نہیں جانتے کہ میاں صاحب کے روز و شب کس بے چینی سے گزر رہے ہیں جس پر گزرتی ہے وہی تن جانتا ہے۔مجھے آج وہ شام یاد آ رہی ہے جب میری ملاقات میاں نواز شریف صاحب سے پہلی بار ہوئی میاں صاحب کے ساتھ اس ملاقات کا اہتمام مرحوم قاری شکیل نے کیا تھا حرم پاک میں نماز مغرب کی ادائیگی کے بعد قصر الضیافہ کی طرف جاتے ہوئے میاں صاحب نے کئی سوال کیئے ان میں یہ بھی ایک تھا کہ چودھری صاحب بتائیے کہ جب لوگ کہتے تھے کہ نواز شریف قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں اب جب میں نے قدم بڑھایا تو پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی بھی نہیں رہا۔اسی دوران عبدالرزاق جامی ے میاں محمد بخش کا کلام سنایا اور اور کہا کہ چودھریوں کے بارے میں میاں صاحب بہت پہلے کہہ گئے تھے نیچاں دی آشنائی کولوں نئی فیض کسے نے پایا۔۔۔۔میں دل ہی ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ یہ کس کے بارے میں کہہ رہے ہیں ہیں میاں صاحب نے سوال دہرایا اور میں نے کہا حجرت جو لوگ آپ کے دور میں اس قوم کو لوٹتے رہے وہ اب کیا کریں گے۔انہیں کہیں نہ کہیں جا کر سر تو چھپانا ہے ہی ہے۔
آج لوگ ادھر ادھر ہو رہے ہیں حقیقت یہ ہے کہ یہ اپنے اس دھن کو چھپا رہے ہیں بچا رہے ہیں۔وہ کسی بھی پارٹی میں چلے جائیں ان کا مقصد ایک ہی ہے اور وہ ہے اپنا حرام مال بچانا۔میاں صاحب چوتھی بار نا اہل ہو رہے ہیں یہ کوئی اعزاز نہیں بلکہ مہذب معاشروں میں تو کلنک ہے اور داغ ہے۔پاکستان کی سپریم عدالت نے انہیں ہیٹ ٹرک سے نوازنے کے بعد ایک اور بار نا اہل قرار دے کر ثابت کیا ہے کہ میاں جی ٹھیک نہ تھے۔یہاں ایک بار لکھے دیتا ہوں بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ جہانگیر ترین بھی رگڑے میں آئے ہیں ان کی جانب سے ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ میں تو ٹیکنیکل بنیادوں پر نا اہل ہوا ہوں اور ویسے بھی میرے درخواست زیر سماعت ہے۔ویسے ان کا کہنا بھی ٹھیک ہے کہ ابھی تو فیصلہ آنے کو ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے سابق سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کے مو ء قف کو سمجھنے کی ضرورت ہیعجلت میں انہیں میاں ساحب کے ساتھ نتھی کرنا زیادتی ہو گی ان کا مزید یہ کہنا تھا کہ میاں صاحب تو منی لانڈرنگ کرتے تھے قوم کا پیسہ لوٹ کر لے جاتے رہے میں نے تو کوئی ایسا کام نہیں کیا۔
میاں صاحب کے ساتھ اچھے دن گزارے ہیں سچی بات ہے ان کے اس عبرت ناک انجام نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا اور اپنے ان ایام کی روشنی میں اس نتیجے پر پہناچا ہوں کہ میاں صاحب حد ذات سے باہر دیکھنے کے قائل نہیں ہیں۔میری دانست میں جب پہلی بار وہ مسترد ہوئے تو انہیں عدلیہ کے ساتھ لڑائی نہیں لڑنی چاہئے تھے۔ان کی عادت ہے کہ وہ خود کم بات کرتے ہیں وہ دوسروں سے کہلوانے کا ملکہ رکھتے ہیں۔افسوس اس بات کا ہے کہ مریم بی بی نے ان کی بیڑیوں میں بٹے ڈالے اور خوب ڈالے۔یہ حیران کن منظر دنیا نے دیکھے کہ ایک بیٹی نے باپ کو اندھے کنویں میں دھکیل دیا لوگوں کے بیٹے ناخلفی کا ثبوت دیتے ہیں لیکن کام الٹ ہوا۔میاں صاحب کے نا سمجھ ساتھیوں میں خواجہ سعد رفیق،خواجہ آصف،طلال چودھری،دانیال چودھری،نہال ہاشمی جیسے لوگوں کی ایک لمبی قطار تھی جو انہیں اس مقام پر لے گئی۔پاکستان تحریک انصاف کے عمران خان کو پاکستان کا نمبر ون لیڈر بنانے میں بھی میاں صاحب کی ہمالہ جیسی غلطیاں تھیں یاد ہو گا بات چار حلقون سے چلی تھی جو چار بار نا اہلی پر ختم ہوئی۔عمران خان کی جد و جہد اپنی جگہ لیکن اس میں جو حکمت عملی نون لیگ نے اپنائی اس کا ہاتھ شمار کرنا ایک غلطی ہو گی۔پی ٹی آئی کے چیئرمین شائد اتنے شاطر نہ ہوں جو ایک جانب نوٹوں کی بوریوں کا مقابلہ اپنی انتھک محنت سے کرتے رہے لیکن دوسری جانب عوام میں مقبولیت کی بڑی وجہ نواز شریف صاحب کا طرز حکمرانی تھا۔ایک چیزجو میں نے نوٹ کی میاں صاحب منقم مزاج ہیں ان کے ذہن سے مشرف دور میں ہونے والے اس انقلاب کی تلخیاں چند افراد کی بجائے ایک ادارے کی طرف منتقل ہونا بھی ہے۔ہم بھی اسی کشتی کے سوار تھے۔میرا تقابل اس لحاظ سے نہیں کیا جا سکتا میں اگر خلاف ہو بھی جاؤں تو فرق نہیں پڑتا لیکن میاں صاحب اس ملک کے وزیر اعظم تھے ان کا یہ انداز قومی ادارے کو بدنام کر رہا تھا۔انہی کے عرصہ ء جلاوطنی میں میں سعودی عرب سے جو چند افراد جبری طور پر فرمائیش کر کے نکالے گئے تھے راقم ان میں ایک ہے لیکن میں اسے پورے ادارے کو ذمہ دار نہیں سمجھتا۔دو افراد تھے جو اس مکروہ کام میں ملوث تھے ایک جنرل اسد درانی اور دوسرے کرنل طارق ان لوگوں نے سعودی اینٹیلیجنس سے مل کر نواز شریف کے ساتھیوں کے خلاف آپریش کرایا جس میں خبریں کے نمائندے کی حیثیت سے میں نے رپورٹ کیا اور ایک اسکول کے معاملے پر ان کی تقریب کا بائیکاٹ کیا تو رگڑا لگا دیا،جمہوریت کے لئے اس لڑائی پر جو نقصان مجھے ہوا وہ ماں کا اس دنیا سے چلے جانا ہے۔
ایک بار مدینہ منورہ میں اوبرائے ہوٹل میں رمضان کے دنوں میں سہیل ضیاء بٹ صاحب نے کہا کہ آج کھانا میاں صاحب کے ساتھ کھائیے میں بھی چلا گیا۔میرے لئے یہ بات حیران کن تھی جب انہوں نے کہا کہ اس۔۔۔۔۔کی چوک میں پینٹ اتار کر دھلائی کرنی چاہئے۔میں نے فوری طور پر کہا نہیں میاں صاحب ایسا نہ کہیں چند کرپٹ اور غلط لوگ اس کے ذمہ دار ہین ان کو تنقید کا نشانہ بنائیں۔اس بات کی تصدیق میاں شہباز شریف نے بھی کی۔میں حیران ہوں کہ کہ انہوں نے مخاصمت لڑائی اور جھگڑے کا راستہ کیوں اپنایا اس راستے پر چلنے والے ملک پاکستان کے ازلی مخلاف ان کے ساتھی بنتے گئے اور پاکستان دوست لوگوں سے ان کی نہیں بنی۔اب دیکھ لیجئے پاکستان مخالف سرحدی گاندھی کے چیلے ان کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے ہیں عبدالصمد اچکزئی والے ان کے ساتھ ہیں الطاف حسین ان کے ساتھی رہے۔دیکھ لیجئے کہتے ہیں کند ہم جنس باہم پرواز کبوتر با کبوتر باز بہ باز انہیں یہ فائدہ رہا کہ وہ ایک مسلم لیگ کے ساتھ جڑ گئے ورنہ ان کی دوستیاں اٹھک بیٹھک قیام پاکستان والی مسلم لیگ کے خلاف رہیں۔میں شرطیہ کہہ رہا ہوں کہ عمران خان اگر مسلم لیگ ع بنا لیتے تو انہیں مسلم لیگ سے محبت والا سارا ووت مل جاتا جیسے ہزارہ میں مسلم لیگ کے سوا کوئی سننے کو تیار نہ تھا۔
دوسری جانب دیکھ لیجئے قیام پاکستان کی وجہ ہی دو قومی نظریہ تھا میاں صاحب اس پر بلکل یقین نہیں رکھتے وہ سر عام کہتے ہیں کہ بیچ میں یہ ایک لکیر سی ہے۔انڈیا کے سکھوں کے درمیان بیٹھ کر ان کی تقریر دیکھ لیجئے موصوف کیا فرما رہے ہیں۔کاش انہیں کوئی سمھاتا کہ قائد اعظم کا یہ فیصلہ بہت کچھ سوچنے کے بعد میں ہوا تھا ورنہ جب چودھری رحمت علی الگ ملک کی بات کر رہے تھے ان دنوں حضرت قائد اعظم ہندو مسل اتحاد کے سفیر قرار دیے جا چکے تھے۔انہوں نے ہندو سوچ کو سمجھ لیا تھا شائد یہی وجہ ہے کہ ایک زیرک شخص کو جب اس ساری کہانی کی سمجھ آئی تو وہ دو قومی نظریے کے نعرے کو لے کر میدان میں آ گئے، شیر اک واری فیر نا اہل اور نالائق ثابت ہوا اس دوران عدالتوں پر دباؤ بڑھانے کے لئے کیا کیا جتن کئے گئے۔بے ہنگم اور بے سری آوازیں کسی گئیں سوشل میدیا پر تو لوگ حد سے گزر گئے لیکن آفرین ہے پاکستان کی اعلی عدلیہ کا جنہوں نے کوئی دباؤ کوئی دھونس اور کوئی غنڈہ گردی خاطر میں نہیں لائی۔
شیر کی درگت بنتے ہم نے آپ نے سب نے دیکھا یہ وہی شیر تھا جو کہتا تھا کہ میں ہوں بس اور کوئی نہیں۔سچ یہ ہے کہ پاکستان اب ایک صیح راستے پر چل نکلا ہے۔اور ضرورت بھی اس بات کی ہے کہ اس بگڑے تگڑے ملک کو سیدھے راستے پر لایا جائے۔بہت سے لوگ ہم سے سوال کرتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف بربادی کے کنارے کھڑے پاکستان کو کس طرح ترقی کے راستے پر گامزن کرے گی۔تو اس کا سیدھا سا جواب ہے کرپشن فری۔چند بڑے چوروں کی سرکوبی اور ایماندار لوگوں کی تعیناتی۔ہمارا ایمان ہے کرپشن اوپر سے شروع ہوتی ہے اور یہ آہستہ آہستہ نیچے سرائت کرتی ہے۔یاد رکھنا جس کا چپڑاسی صاحب سے ملوانے کے پیسے لیتا ہو گا وہاں کا صاحب سے بڑا چور ہو گا۔
میں نے اپنی زندگی کے تجربات سے سیکھا ہے کہ کرپشن کسی بھی ادارے کی جڑیں کھوکھلی کرتی ہے۔پاکستان اس وقت کھوکھلا ہے اسے سیراب کرنا ہے سینچنا ہے ایمانداری کی آبیاری کر کے۔اور خبر یہ ہے کہ جناب شیر ایک واری فیر نالائق قرار دیے گئے ہیں۔ گجرانوالے کے محلے باغبانپورے کا کلو جٹ تین بار فیل ہوا تھا یہ تو اس سے بھی گئے گزرے ہیں۔کلو دو سے زیادہ بار فیل نہیں ہوا۔انسان غلطیوں سے سیکھتا ہے۔میاں صاحب آپ کی ادروں سے لڑائی پہلی بار تو سمجھ میں آئی اس کے بعد بار بار یہ سمجھ سے باہر ہے۔ویسے یہ ادارے ہمارے اپنے ہی تو ہیں اور اپنوں سے لڑا نہیں جاتا۔کلو اور ؤپ میں فرق ہونا چاہئے اس کا کتاب سے کوئی واسطہ نہ تھا آپ تو پڑھتے ہوں گے۔پاکستان کی تاریخ میں یہ کبھی نہیں ہوا کہ ایک منتحب وزیر اعظم کو بار بار نا اہل قرار دیا گیا ہو آپ نے وہ ریکارڈ بھی بنا دیا۔اب بھی ڈھلیاں بیراں دا کج نئی گیا۔باقی وقت اللہ کرتے گزار دیجئے۔شیر اک واری فیر