ادب کی ترویج و اشاعت میں جو کردار رسائل کا رہا ہے وہ کتاب کلچر یا دیگر ادبی سرگرمیوں سے کہیں بڑھ کے ہے۔خوش قسمتی سے اْردو میں بہت سے اہم جرائد و رسائل اس اہم ذمہ داری کو نبھاتے رہے ہیں۔ رسائل کلچر اصل میں انگریز عہد میں آیا جب ادب کو ایک سماجی حقیقت کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ پریس نے برصغیر میں ایک نئی تخلیقی دنیا کا دروازہ کھول دیا۔ نِت نئے رسائل جاری ہونے لگے۔ اخبارات اور کتابوں کی اشاعت نے ہماری سماجی اور تخلیقی زندگی پر بہت سے اثرات ڈالے۔ اور یوں ادب بھی ان اثرات سے بہرہ مند ہونے لگا۔
یہ بات باعث اطمینان ہے کہ گذشتہ ایک دَہائی کے دوران اٹک جیسے پسماندہ ضلعے میںبھی لا تعداد پبلشنگ ہائوسز قائم ہو گئے ہیں جو نہایت کامیابی کے ساتھ نئے لکھنے والوں کی تخلیقات کو کتابی شکل میں تشنگان علم کی پیاس بجھانے کا وظیفہ سرانجام دے رہے ہیں۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ تک رسائی کے باوجود کتاب بینی کی اہمیت مسلمہ ہے اوراس کی طرف مائل ہونا یقینا کتاب دوستی کو مرنے نہیں دے گا۔آئے روز اٹک کے طول و عرض سے نئی کتابوں اور مصنفین کی تعداد میں اضافہ خوش آئیند ہے جو آنے والی نسلوں کی راہنمائی و کردار سازی میں نمایاں کردار ادا کرے گا۔
“ذوق “کتابی سلسلہ (جنوری 2019ئ)کا پہلا شمارہ اپنی جازبیت، خوبصورتی اورفہرست مضامین کے اعتبار سے ضلع اٹک سے شائع ہونے والے ادبی مجلات میں ممتاز مقام اختیار کرگیا ہے، جسے ممتاز ادیب، شاعر و استاذ الاساتذہ مشتاق عاجز صاحب کی سرپرستی میں ضلع اٹک سے شائع کیا گیا ہے۔ اس مجلے کے مدیر اعلیٰ کے فرائض پروفیسر نصرت بخاری سرانجام دے رہے ہیںجبکہ مدیر ارشد سیماب ملک و معاون مدیرحسین امجد ہیں۔ایک سو چھہتر صفحات پر مشتمل اس خوبصورت ادبی مجلے میں مجلس ادارت نے مضامین ِ نو کے انبار لگا کر اسے حقیقی معنوں میں علم و ادب کا خرمن بنا دیا ہے۔ایک زمانہ تھاجب اُردو کے ضخیم ادبی مجلات کی ہر سْو دھوم مچی تھی۔ارد وادب کی تاریخ میں فنون،اوراق،نقوش،اقدار،افکار،ساقی،نیادور،زعفران،معیاراورکاروان کی علمی و ادبی خدمات آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ان مجلا ت کی پہچان ان کے ضخیم نمبر ہوا کرتے تھے اور ان کا ہر شمارہ اپنے مشمولات کی وجہ سے خاص شمارہ قرار پاتا تھا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نہ یہ ضخیم مجلات رہے اور نہ ہی ان کے عظیم مدیر سیلِ زماں کے تھپیڑوں میں سب کچھ بہہ گیا ۔
ذوق کے مدیر اعلیٰ میرے عزیز دوست پروفیسر نصرت بخاری پی ایچ ڈی اسکالر ہیں جو اُن اساتذہ میں سے ایک ہیں جنہوں نے تعلیم کو صرف پیشہ نہیں سمجھا کہ بس جو پڑھا ہے اسے ہی پچیس تیس سال پڑھانا ہے۔انہوں نے اپنا تحصیل علم کا شوق نہ صرف جاری و ساری رکھا ہوا ہے بلکہ آئے روزاردو ادب میں ہونے والی نئی تحقیق سے اپنے طلباء کو بھی برابر سیراب کیئے ہوئے ہیں۔ انہوںنے اپنے ایم فل کا تھیسز”مکاتیب مشاہیر بنام حق نواز خان” لکھا، اسکے بعد ان کا قلم پھر رکا نہیں ،شاعری میں انکا مجموعہ کلام “سخن یہ ہے”، افسانوںپرکتاب “گھائو” جبکہ ضلع اٹک کی نمایاں شخصیات پر “شخصیات اٹک” شہرت کی بلندیوں کو چھو چکی ہے اور اسکے تین والیم شائع ہو چکے ہیں۔ اب تینوں والیم کو یکجا کر کے ایک دیوان بھی منصہ شہود پر آچکا ہے۔
ذوق کے مدیر ارشد سیماب ملک کی شخصیت بھی کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ انکی کتاب “تذکرہ شعراء اٹک ” 2012ء میں چھپ کر ادبی حلقوں میں جگہ بنا چکی ہے یہی نہیں بلکہ ضلع اٹک کے افسانہ نگاروں پرانکی تحقیقی کتاب”دستاویز” کے نام سے حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ذوق کے معاون مدیر حسین امجد کی شاعری اور دیگر موضوعات پر بھی کئی کتابیں تحریر کر چکے ہیں۔ذوق کا پہلا شمارہ نصرت بخاری صاحب نے میرے دوست اقبال زرقاش کے توسط سے مجھے بھجوایا جبکہ ارشد سیماب ملک نے بھی مجھے بذریعہ ڈاک بھجوا کر شکریئے کا موقع عطا کیا۔خوبصورت لے آئوٹ سے مزین ضخیم شمارہ تحصیل علم کے متلاشیوں کو نہ صرف سیراب کرے گا بلکہ ان کی قدم بہ قدم راہنمائی کا فریضہ بھی سرانجام دے گا ۔ اس مجلے کے مضامین کے انتخاب میںاسکے نام کی لاج رکھتے ہوئے نہایت چھانٹ پھٹک اورعرق ریزی دیکھائی گئی ہے تاکہ اس میں شامل علمی و تحقیقی مواد اسے باذوق لوگوں اور عمدہ معیاری مجلات کی صف میں جگہ بنانے میں معاون ہو۔
اس مجلے کی ورق گردانی سے یہ ادراک ہوا کہ یہ مجلہ پاک و ہند کے کسی بھی حصے سے شائع ہونے والے ادبی مجلے سے معیار اور مندرجات کے حوالے سے کم نہ ہے۔حمد، نعت، غزلیات، مضامین،تحقیق،تنقید، مکالمہ، افسانے اور افسانچے تک ہر صنف ادب شامل مجلہ ہے۔مضامین میںڈاکٹر ارشد محمود ناشاد صاحب کا “حکیم یوسف حضروی اور اُن کا سفر سیرِ سوات” ارشد سیماب ملک کا “اُردو جریدہ نگاری اور تاریخ ساز رہنمائے تعلیم”اور افسانوں میں نند کشوروکرم کا افسانہ” کابلی والا کی واپسی”، خالد قیوم تنولی کا “اِک چراغِ رُخ زیبا” اور صبا ممتاز بانو کا “آزادی”خاصے کی چیز ہیں اور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔غرض اس شمارے میںتمام اصناف ادب کی چاشنی موجود ہے۔البتہ ناول(اقساط میں)،ناولیٹ، تنقید،کالم،خاکہ، انشائیہ، کہانی،داستان / قصہ،ڈراما،سفرنامہ اور سوانح حیات کو آمدہ شماروں میں باقاعدگی سے شامل کر لیا جائے تو یہ تمام اصناف ادب کے قاریوں کے لیے ادبی گلدستہ بن جائے گا۔آخر میںاللہ پاک سے دُعا گو ہوں کہ پروفیسر نصرت بخاری کا لگایا یہ پودا ایک دن مضبوط اور توانا درخت بن جائے اور ہرآنے والے مسافر کو ٹھنڈی چھائو ں مہیا کرے۔ امین