تحریر : حسیب اعجاز عاشر اپنے علم کے مطابق اپنے مشاہدات، خیالات اور احساسات کو لفظوں کے سانچے میں کیسے ڈھالا جائے؟افسانہ ہو،یاکالم ، ناول ،یا پھر کہانی، کیسے لکھے جائیں؟تحقیقاتی رپورٹنگ کیلئے کون سے دائو پیچ کب اور کیسے استعمال کئے جائیں؟انٹرویو کیلئے بہترین طریقہ کار کونسا رہے گا؟خبر کیسے تلاش کی جائے؟ تنقید کیلئے الفاظ ،حدود اور دائرہ کار کا تعین کیسے کیا جائے؟لکھنے کی جگہ،وقت اور موضوع؟ آپ کے تجربات، اسلوب، بے ساختگی، شستہ زبانی آپ کوکونسے سے صنف پر میں طباع آزمائی کی اجازت دے رہے ہیں ؟اِن کے جوابات اور رہنمائی کی جستجو میں نئا لکھاری نگر نگر کی خاک چھاننے کو تو تیار ہے مگر کونسا راستہ کدھر کو جائے ،معلوم نہیں ۔۔ یہاں کئی تنظیمیں دعویدار توہیں کہ وہ نئے لکھاری کی رہنمائی کیلئے اپنی خدمات پیش کر رہی ہیں ، مگر اِس دعوی میں کتنی صداقت ہے؟کیا وہ واقعی اپنے قول پر عمل بھی کر رہی ہیں یا اِن تنظیموں کے پلیٹ فورم کو فقط اپنی تعریف و توصیف اور اپنے حاشیہ برداروں کی خوشامد و چاپلوسی کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے؟ یہ الگ بحث ہے جو آج کا موضوعِ تحریر بھی نہیں۔۔۔ہاں مگر۔۔ اِس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ کچھ شخصیات ضرور آج بھی ایسی ہیں جو نئے لکھاریوں کو درپیش مشکلات کے حل کیلئے اخلاص کیساتھ مسلسل تگ و دومیں ہیں ،غرض ہے تو صرف یہ ہے کہ اچھے تخلیق کاروں کی حوصلہ افزائی کیساتھ ساتھ نئے لکھنے والوں کی اصلاح بھی کی جاسکے تا کہ وہ اپنی اچھی تحریروں سے معاشرے کی تشکیل و تعمیر میں اپنا مثبت کردار باخوبی نبھا سکیں۔
انہیں شخصیات میں مرزایسین بیگ کا نام بھی نمایاں ہے،جنہوں نے اپنی قوت فیصلہ، پہل کاری، ہمت و حوصلہ، خوداعتمادی، مثبت سوچ و عمل ،بھروسہ مندی جیسی خصوصیات کے بدولت فروغ ادب وصحافت میں جس برق رفتاری سے جو مقام حاصل کر لیا ،وہ انہیں کا خاصہ ہے،گزشتہ چند سالوں سے اِنکی سرپرستی ایک تنظیم نے مختلف شہروں میں کئی بڑی ادبی تقریبات کا انعقاد کیا ،بحثیت منظم اعلیٰ انکی کاوشوں کو ہر حلقہ میں خوب پذیرائی ملی ،تنظیم باہمی اختلافات کی لپیٹ میں آئی ،مگر قائدانہ صلاحیتوں کے مالک مرزایسین ڈگمگائے نہیں بلکہ نئے جوش و جذبہ کے ساتھ ایک نئی تنظیم ”پاکستان رائٹر کونسل”کی بنیاد رکھ کر کے ادبی تاریخ کے گہواہ شہرننکانہ میں ”پہلی قومی اہل قلم کانفرنس” کا انعقاد کرکے اپنے اِس عزم کا ایک بار پھر بھرپور اظہار کردیا کہ وہ آج ادب میں رحجان پاتی انفرادیت پر یقین نہیں رکھتے اور نہ ہی اپنی اپنی ڈفلی اور اپنے اپنے راگ پر، بلکہ اُنہوں ادیب و صحافیوں کی کثیر تعداد کہ علاوہ مختلف صحافتی اور ادبی تنظیموں کے عہدایداروں کو ایک ہی پلیٹ فورم پر اکٹھا کر نے کا عملی مظاہر بھی کر دیا ۔۔۔جن نئے لکھاریوں کو سیکھنے کے حوالے سے ادب وصحافت کی موجودہ صورتحال صحت افزا اورامیدافزا دیکھائی نہیں دیتی تھی اُن کیلئے یہ کانفرنس کسی دھوپ کی شدت میں تپتے صحرائوں پر چلنے والوں کیلئے کسی خوشگوار ،تازہ ٹھنڈے ہوا کے جھونکے کی مانند تھی۔
پاکستان رائٹرز کونسل کے زیراہتمام منعقدہ پہلی قومی اہل قلم کانفرنس کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا جس کی سعادت فرحان کوکب سے حاصل کی قاری جمیل نے مسحور کُن آواز آپ ۖکے حضور نعت کا ہدیہ عقیدت پیش کیا ،تقریب کے منتظم اعلیٰ مرزا یسین بیگ نے نظامت کا فرائض اپنے منفرد انداز و بیان میں انجام دینے کی خوبصورت روایت کو قائم رکھا ۔اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ اللہ نے انسان کو قلم کے زریعے علم سکھایا ۔لکھنا پڑھنا ،تقریر و تحریر آپس میں لازم و ملزوم ہیں اور وہ نفوس خالق کائنات کے برگزیدہ ہیں جنہیں قلم،علم ،عمل اور دانش کے خزائن سے مالا مال کیا گیا ہے۔
معروف شاعر اور ادبی تنظیم ”وجدان” کے صدر چوہدری محمد انور زاہد کی زیرصدارت اور رائے محمد خان ناصر کی زیرسرپرستی اِس تقریب میں پاکستان رائٹرزکونسل کے قیام کا باقاعدہ اعلان کیا گیا جبکہ نئے عہدیداران میں بدستِ سرپرست پاکستان رائٹرکونسل زاہد حسن کے نوٹیفکیشن بھی تقسیم کئے گئے ۔تقریب میں میگزین ایڈیٹر روزنامہ اوصاف،لاہور ندیم نظر،مہمانانِ اعزازی میں شہزاد فراموش، محمد فاروق انجم اور نعیم مرتضیٰ کے علاوہ عبدالصمد مظفر، ڈاکٹر شذرہ منصب علی خان،اسعد نقوی، حافظ زاہد، ایم ایم علی، غلام غوث، عقیل احمد خان، فہد خان فہد، عبداللہ خان،افتخار خان،محمد عرفان سمیت مختلف شعبہ ہائے جات سے تعلق رکھنے والوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔
فکشن رائٹر ،نقاد اور دانشورزاہد حسن کا اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ مرزایسین جو دو تین سالوں سے ایک آئیڈیل کام جاری رکھے ہوئے تھے اور اب حسن تخلیق کے ساتھ نئے جذبے کیساتھ نئا سلسلہ شروع کیا ہے جو قابل تحسین ہے ۔صدر پی ڈبلیو سی الطاف احمد نے سپاس نامہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پہلا سنگِ میل ننکانہ میں قومی اہلِ قلم کانفرنس 2018 کا انعقاد کروانا تھا۔ جو کہ الحمدللہ آج عبور ہو چکا ہے۔ بڑے شہروں جیسے صحافتی و ادبی مراکز سے ہٹ کر ننکانہ جیسے دورافتادہ شہروں میں ایک عظیم الشان ادبی و صحافتی میلا سجانایقینا ایک کٹھن مرحلہ تھا۔
قلمی خدمات کے اعتراف میں ناصر رائے خان،ندیم نظر، شہزاد فراموش، اشفاق احمد خان،گل نوخیز،ناصر ادیب، انورزاہد،زاہد حسن، ایم فاروق انجم،سید بدر سعید،نعیم مرتضیٰ،عاصم حفیظ،فہد شہباز خان کو یادگاری شیلڈز سے بھی نوازا گیا۔جبکہ وجدان کی جانب سے مرزا یسینٰ بیگ کو بھی شیلڈ پیش کی گئی ۔محمد عاصم حفیظ ،اینکر پیغام ٹی وی ،نے ”ہماری زندگی اور میڈیا” کے عنوان پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم میڈیا کو کیسے بہتر استعمال کر سکتے ہیں تاکہ معاشرے کی بہبود میں اپنا مثبت کردار ادا کرسکے ،کیسے موثر استعمال سے اپنی زندگی کو خوشگوار بنا سکتے ہیں ۔۔
اشفاق احمد خاں، مدیر ماہنامہ آفاق انسائیکلو پیڈیانے خطاب کرتے ہوئے ”اچھی کہانی کیسے لکھی جائے ” کے حوالے سے بڑے سلیقے سے کئی گتھیاں سلجھائی۔سید بدر سعید، کالم نگار اسکرپٹ رائٹرنے اپنے عنوان’ ‘انٹرویو کیسے کریں”سے خوب انصاف کیا ،کہنا تھا کہ جہاں جانا ہے وہاں کے ماحول کا پتا ہو، اُس شخص کے حوالے سے معلومات ہوں، تا کہ سوالات زیادہ نکلیں۔فہد شہباز خان، اینکر دنیا ٹی وی کیلئے ”خبر کیسے تلاش کی جائے”کا انتخاب کیا گیا تھا ،انہوں نے نہایت ہی موثر انداز اور نپے تلے جملوں نے نئے لکھاریوں کو وہ گُر سیکھا دیئے جس پر عمل پیرا ہو کر صحافت میں بام عروج حاصل کیا جاسکتا ہے ۔
مشہور زمانہ مولا جٹ سے مقبولیت پانے والے فلم رائٹر ،ڈائریکٹر ،دانشور ناصر ادیب کو اظہارخیال کے لئے مدوح کیا گیا تو شرکاء نے تالیوں کی گونج میں انکا استقبال کیا ،انہوں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے شکوہ کیا کہ فلم نگاری بھی تخلیقی عمل ہے مگر افسوس فلم رائٹر کوادیبوں میں شمار نہیں کیا جاتا ۔سکرپٹ رائٹر،کالم نگار، فکشن رائٹرگل نوخیز نے کالم نگاری کا نسخہ بتاتے ہوئے کہا کہ اچھے کالم پڑھیں گے تو ہی اچھا کالم لکھ سکیں گے۔علی اصغر عباس ،ایڈیٹرایڈیٹوریل روزنامہ دن نے ”اچھا کالم کیسے لکھا جائے؟”نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہر اچھے کالم نگاری کیلئے ضروری ہے روایت کیساتھ جدت پسندی کا رحجان بھی پیدا کریں ۔
تقریب کے آخری مقرر مہمان خصوصی رکن صوبائی اسمبلی اور مشیر وزیراعلیٰ پنجاب رانا محمد راشد کا کہنا تھا کہ نئے لکھاریوں کے لئے اس ادبی سرگرمی میں شرکت ایک اہم موقع ہے جہاں ہماری آنے والی نسلیں اور مستقبل کے معمار اپنے کلچر، زبان اور ادب کے حوالے سے بہتر طور پر روشناس ہوسکیں گے۔اِس حوالے سے پاکستان رائٹر کونسل کی خدمات قابل ستائش ہیں ۔شاعر اور ادبی تنظیم ”وجدان” کے صدر چوہدری محمد انور زاہد نے کہا کہ ہمارا معاشرہ مصیبت سے دوچا رہے اور ایسے میں ایسی تقریبات کا انعقاد بہت ضروری ہے تاکہ ادب کو فروغ دیا جاسکے جو باہمی محبت کو پروان چڑھانے کا موجب ہے۔
یقینا یہ تقریب تخلیقی صلاحیتوں کو بہترانداز میں بروئے کار لانے کیلئے ادب و صحافت سے وابستہ نئے لکھاریوں کیلئے معنی خیز رہی۔مرزایسین کے اختتامیہ کلمات کے ساتھ ایک یادگار اور شاندار قلمی کانفرنس اِس امید کیساتھ اپنے اختتام کو پہنچی کہ آج اختتام نہیں بلکہ آغاز ہوا ہے۔