ہم نے اکثر گھرانوں میں یہ دیکھا ہے کہ مائیں یہ شکایت کرتی نظر آتی ہیں کہ بچہ بہت بدتمیز ہو گیا ہے۔ماں کو ماں نہیں سمجھتا۔ ہم اس بارے میں یہ ضرور کہیں گے کہ بچہ ماں کو ماں ضرور سمجھے گا۔ بشرطیکہ ماں اپنے آپ کو ماں سمجھے۔ عید الفطر کے دن ہمیں کسی جاننے والے کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ گھر کے تقریباتمام افراد مل کر اردو ڈرامہ دیکھ رہے تھے۔ ہمارے بیٹھے محترم کا بڑا بیٹا گھر داخل ہوا۔ کپڑے وغیرہ تبدیل کرنے کے بعدماں سے بھوک کی شکایت کی۔ما ں نے تیکھے انداز میں کہا باورچی خانے میں جا کر کھا لو میں ڈرامہ دیکھ رہی ہوں۔ ہمیں محترمہ کے منہ سے یہ الفاظ سن کر بہت دکھ ہوا۔ ہمیں یوں محسوس ہوا جیسے محترمہ کو ٹیلی ویڑن نے اغوا ء کر رکھا ہوا۔ اکثر ماؤں کی یہ شکایت تو بجا ہے کہ بچہ بڑا بد تمیز ہو گیا ہے لیکن کبھی کسی ماں نے اس کے اسباب جانے کو کوشش نہیں کی۔ آج بھی ایسی مائیں ہیں جو خاندانی روایات اور مذہبی و اخلاقی اقدار کی پابند اور آج بھی اپنے منصب اور فرائض کو اچھی طرح محسوس کرتی ہیں۔لیکن حالات کے ساتھ ساتھ معاشرے کے اکثرگھروں کی صورت حال بھی بدل رہی ہے۔ بچوں کی شخصیت سازی میں گھر کا ماحول ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔اسی بنیاد پربچہ کی شخصیت اور کردار کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔ باپ کی نسبت ماں بچوں کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ سرسید احمد خان نے سیرفریدیہ میں بڑی انمول بات کہی ہے کہ اچھی ماں ہزار استادوں سے بہتر ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ادب اور ماں کا بچوں کی شخصیت سازی سے کیا تعلق ہے ؟
سرسید احمد خان نے اس کا جواب اپنی ماں محترمہ عزیزالنساء کی شخصیت کے حوالہ سے لکھا ہے۔ سرسید لکھتے ہیں کہ میری ماں اعلیٰ خیال، عمدہ اخلاق،نیک صفت، دانش مند،دور اندیش اور فرشتہ صفت عورت تھیں۔ اسی ضمن کی مثال دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کی ماں محترمہ عزیزالنساء بیگم نے سرسید کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ جہاں جہاں تم جانا لازمی سمجھتے ہو اور ہر حالت میں تمہیں وہاں جانا لازمی ہو تو کبھی سواری پر جایا کرو اور کبھی پا پیادہ کیونکہ زمانے کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔ کبھی کچھ ہے اور کبھی کچھ۔ پس ایسی عادت رکھو کہ ہر حالت میں اس کونبھا سکو، یہی نہیں سرسید کے متعلق ایک واقعہ یہ بھی ملتا ہے کہ ایک دفعہ سرسید نے اپنے ایک نوکر کو تھپڑ مار دیا اس پر سرسید کی والدہ محترمہ عزیزالنساء نے انہیں گھر سے نکال دیا کہ جب تک اس نوکر سے اپنا قصور معاف نہ کروا لو میں تمیں معاف نہیں کروں گی۔سرسید احمد خان نے لکھا ہے کہ میں نے اس نوکر کے آگے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی تب جا کر کہیں میری ماں نے مجھے معاف کیا۔ آج کی جدید ماؤں کو چاہیے کہ صرف بچوں کو مورد الزام نہ ٹھرائیں بلکہ بچوں کہ اصلاح کے ساتھ ساتھ اپنی ذات کی اصلاح اور خود احتسابی بھی کریں۔ بچوں کے زاویے بنانے اور بگاڑنے میں ماں اہم کردار ادا کرتی ہے۔بچوں کا زیادہ وقت ماؤں کے ساتھ گزرتا ہے لہذا وہ اپنے مثبت طرز عمل سے بچوں میں مثبت طرز فکر پیدا کر سکتی ہیں۔ جہاں تک ماؤں کا تعلق ہے اسلامی تاریخ کی تمام عظیم خواتین کے تذکرے ہمارے سامنے ہیں جن میں بڑی خوبی سے یہ بتایا گیا ہے کہ ان ماؤں کا شخصیت کا پرتو کس حد تک ان کی اولادوں پر پڑا اور آگے چل کر وہ کس اعلیٰ وارفع مقام پر فائز ہوئے۔
آج کے حالات میں اگر اس پس منظر کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ معاشرے کی بہت سی ماؤں نے اپنے منصب اور ذمہ داریوں سے فرار حاصل کر لیا ہے۔ شاید وہ بھول چکی ہیں کہ بچوں کی سیرت ان کی سیرت سے تشکیل پاتی ہے۔جب تک ماؤں کی اپنی شخصیت میں اوصاف حمیدہ کی رمق باقی نہیں ہو گی ان کے بچے نیک صفات کے حامل نہیں ہوں گے اگر مائیں خود اشتعال انگیز رویہ اختیار کریں گی اور اپنے گھریلو جھگڑوں میں انہیں برا بھلا کہیں یا بطور محرک انہیں استعمال کریں گی یا ان کی ساتھ ایسا رویہ اختیار کریں گی جس کا ذکر ہم نے اوپر کیا ہے یا بے جا ان کی طرفداری اور پوری بات سنے بغیر دوسروں سے الجھنے لگیں اور جو بات نظر انداز کرنے والی ہیں انہیں اہمیت دیں اور جو باتیں اہمیت دینے والی ہیں انہیں نظر انداز کریں گی تو اس طرح کا رویہ بچوں کو تباہی کی طرف لے جائے گا۔اکثر گھروں میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ ماں اپنے بیٹے یا بیٹی کوپڑھائی پر مجبور کرتی ہیں اور خود ٹیلی ویڑن پر ڈراموں اور فلموں سے لطف اندوز ہو رہی ہوتی ہیں۔بعض مائیں اپنے بچوں کے دفاع کے لیے اپنے شوہروں سے جھوٹ بولتی ہیں اور بچوں سے یہ امید رکھتی ہیں کہ ان کا بچہ سچ بولے۔بعض گھروں میں یہ بھی دیکھنے کو ملا ہے کہ مائیں خود بھی جھوٹ بولتی ہیں اور اپنی بات کے دفاع کے لیے بچوں کو بھی جھوٹ بولنے کی تلقین کرتی ہیں۔اور اس جھوٹ کے مضر اثرات سے قطعاٰ خوف نہیں کھاتیں۔بض مائیں بے جا لاڈ پیار کے سبب بچوں کی ہر غلطی اور ہر قصور کو نظر انداز کر دیتی ہیں۔ہر کوئی جانتا ہے اور کہتا ہے کہ ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہے۔اور آج کی جدید مائیں اپنا بچپن یاد کریں کہ ایک وقت وہ تھا جب بچے اپنی ماں کی گود میں انبیاء کرام ،صحابہ کرام اور بزرگوں کے قصے سن سن کر نیندکے آغوش میں پہنچتے تھے۔
آج کی ماؤں کا یہ حال ہے کہ مائیں ٹیلی ویڑن ،اور فیشن کی دنیا میں مگن ہیں۔اور ٹیلی ویڑن دیکھتے دیکھتے جب ان کی آنکھیں بوجھل ہو جاتی ہیں اور بچے بھی اوٹ پٹانگ فلمی نغموں کے درمیا ن کسی دم آنکھیں موند لیتے ہیں۔آج اس امر کی سخت ضرورت ہے کہ ہم سب کو اس طرف دھیان دینا چاہیے کہ ماں کی گود اگر بچے کی پہلی درسگاہ ہے تو آج کا بچہ اس درسگاہ میں کیا سیکھ رہا ہے۔ماؤں کو بھی اس طرف دھیان دینا چاہیے۔ اگر مائیں یہ چاہتی ہیں کہ ان کی اولادیں دنیا کے لیے ایک نمونہ ہوں تو انہیں اپنے منصب اور فرائض کو سمجھنا ہو گا کیونکہ ماں کی زبان سے سنا ہوا ایک واقعہ بھی بچوں کی زندگی پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے۔ اس کی حقیقت آج بھی ان افراد سے جانی جا سکتی ہے جنہوں نے بچپن میں اپنی ماؤں سے بزرگوں کی قصے یا سبق آموز کہانیاں سن رکھی ہیں۔ایسے افراد بوڑھے ہو جانے کے باوجود اپنی ماں کی نصیحت کو فراموش نہیں کر پائے۔ماہرین نفسیات بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ بچے پر سب سے گہرا اثر اس کی ماں کا ہوتا ہے اگر بچے پر اس کی ماں کے نیک اور خوشگوار اثرات پڑیں گے تو یقیناًاس کی روشنی بچے کے مستقبل کو منور کرئے گی اور وہ زندگی بھر اپنی ماں کی نصیحت اور نیک اثرات کو ضائع نہیں کرئے گا اگر ایسا نہیں ہوا تو بچہ بڑا ہو کر تعلیم حاصل کرنے کے باوجود وہ روشنی حاصل نہیں کر سکے گا جو روشنی پہلی درسگاہ سے خاطر خواہ استفادہ کرنے والے بچے کی ہو گی۔ اس لیے ماؤں کو بچپن ہی میں اپنی اولاد کی اصلاح پر خاطر خواہ توجہ دینی چاہیے۔اور آج کی ماؤں کو یاد رکھنا چاہیے کہ شیخ سعدی کا کہنا ہے کہ :۔جو شخص بچپن میں ادب کرنا نہیں سیکھتا بڑی عمر میں بھی اس سے بھلائی کی امید نہیں۔