تحریر : علی عبداللہ عالمی سطح پر نظام تعلیم مختلف مشکلات کا شکار ہے ۔ بنیادی تعلیم مہیا کرنے کے لیے پوری دنیا میں پچھلی کئی دہائیوں سے مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں ۔ لیکن یہ اقدامات اتنے سست رفتار ہیں کہ تعلیم سے محروم آخری بچے کو 2086 تک کلاس روم میں جانے کا موقع مل سکے گا ۔ سال 2014 میں تقریباً 750 ملین سے زیادہ بالغ افرادبنیادی پڑھنے اور لکھنے کی صلاحیت سے محروم تھے ۔ اس کے ساتھ ساتھ تقریباً 260 ملین پرائمری اور سیکنڈری سکول جانے کی عمر والے بچوں کو تعلیم کی سہولت میسر نہیں تھی ۔ ناخواندگی کی سب سے اہم وجوہات میں تعلیم کی سہولت کا میسر نہ ہونا، غیر معیاری تعلیم اور ابتدائی عمر سے ہی سکول کو خیر باد کہنا شامل ہیں ۔ اعداد و شمار کے مطابق 49 فیصد ناخواندہ آبادی صرف جنوبی ایشیا میں پائی جاتی ہے ۔
یونیسکو کی طرف سے خواندگی کی تعریف یوں کی جاتی ہے ، ” Means of identification ,understanding, interpretation, creation and communication in an increasingly digital textـ mediated ,information ـrich fast changing world” مزید یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ ہر لڑکے اور لڑکی کو مساوی بنیادوں پر مکمل مفت اور معیاری پرائمری و سیکنڈری تعلیم فراہم کی جائے گی جس سے مؤثر نتائج بر آمد ہو سکیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معیاری تعلیم کیا ہے ؟
بہت سے ممالک اپنے نظام تعلیم پر طویل مدتی سطح پر بجٹ کا حصہ مختص نہیں کر پاتے جس کی وجہ سے بہت سے ایسے سکول وجود میں آ چکے ہیں جو والدین سے بھاری فیسیں بٹورتے ہیں لیکن بدلے میں ایسی تعلیم نہیں فراہم کر پاتے جو انہیں انفرادی طور پر اور معاشرتی سطح پر مضبوط بنا سکے ۔ اس کے لیے باقاعدہ ایک مضبوط قومی نظام تعلیم ہونا چاہیے جو اساتذہ پر بھی بھرپور توجہ دے سکے ۔ معیاری تعلیم کے لیے معیاری اور قابل اساتذہ کا ہونا بہت ضروری ہے ۔ ہر وہ جگہ جہاں نوجوانوں کی صلاحیتیں نکھرتی ہیں اور بچوں میں تعیم کا شوق پیدا ہوتا ہے وہاں ان معیاری اساتذہ کا کردار شامل ہوتا ہے جو نہ صرف طلباء کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہیں بلکہ جاب مارکیٹ کے ٹرینڈ بھی سیٹ کرتے ہیں ۔
غیر معیاری تعلیم کی ایک اور بنیادی وجہ اساتذہ کی کم تنخواہیں ہیں ۔ پوری دنیا میں اساتذہ کو کم تنخواہ پر گذارہ کرنا پڑتا ہے اور بعض اوقات تو انہیں دو دو ماہ کی تنخواہ لیے بغیر اپنی خدمات سر انجام دینا پڑتی ہیں ۔ ایک رپورٹ کے مطابق 40 سے زائد ممالک میں تو قابل اور معیاری اساتذہ دستیاب ہی نہیں ہیں جو 2030 کی عالمی ایجوکیشنل پالیسی کو پورا کر سکیں ۔ گذشتہ سال ایجوکیشن کمیشن نے تعلیم کے لیے عالمی فنانس 44 بلین ڈالر سالانہ کرنے کی اپیل کی تھی تاکہ تعلیم پر زیادہ خرچ ہو سکے کیونکہ ایک اندازے کے مطابق 2030 تک دنیا کی تقریباً پچاس فیصد جابز جن کی تعداد دو بلین بنتی ہے مشینوں اور آڑٹیفیشل انٹیلیجنس کی وجہ سے ختم ہو جائیں گی ۔
تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے ۔ موجودہ ڈیجیٹل دور میں لوگوں کا رہن سہن، سیکھنے کا طریقہ کار، اور ذریعہ تعلیم میں بدلاؤ آ رہا ہے ۔ یہاں بھی ٹیکنالوجی کی غیر مساوی تقسیم آڑے آ کر ناخواندگی میں اہم کردار ادا کر رہی ہے ۔ یو این انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکیشن یونین کے مطابق 2016 تک دنیا کی 53 فیصد آبادی انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم تھی ۔ یاد رہے کہ 8 ستمبر یونیسکو کا عالمی خواندگی کا دن ہے اور اس سال یونیسکوکیطرف سے یہ دن ڈیجیٹل لٹریسی کے طور پر منایا جا رہا ہے ۔
پاکستان کی بات کریں تو یہاں غیر معیاری تعلیم عام ہے ۔ سکولز سے لے کر کالجز اور یونیورسٹیز تک اس میں ملوث ہو کر طلباء کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں ۔ایسے ادارے بھاری فیسوں کے عوض کاغذ کے ٹکڑے تھما کر طلباء کو منفی اور تخریبی سرگرمیوں میں مشغول ہونے پر آمادہ کر رہے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت سختی سے ایسے اداروں کو بند کرے اور جدید ضرورتوں کے ہم آہنگ تعلیمی پالیسیاں متعارف کروائے جو موجودہ ڈیجیٹل ورلڈ کے بھی ہم آہنگ ہوں تاکہ طلباء میں تعلیم کا شوق اجاگر ہو اور وہ معاشرے میں کارآمد افراد بن کر ترقی کی جانب بڑھ سکیں ۔