پاکستان مخالف قوتوں نے اب اپنی سازشوں کوتیز کردیا ہے ویسے تو قیام پاکستان سے قبل بھی پاکستان مخالف قوتوں کی سرگرمیاں اپنے عروج پر تھی مگر اس وقت نہ تعلیم اتنی عام تھی اور نہ ہی میڈیا اتنا تیز تھا مگر اس دور کے مطابق پاکستان مخالف قوتیں اتنی ہی سرگرم تھیں جتنی آج ہیں چونکہ اس وقت قائد اعظم اورمحترمہ فاطمہ جناح سمیت مسلم لیگ کی لیڈر شپ ان سازشوں کو سمجھتی تھی اور انہوں نے ڈٹ کر اسکا مقابلہ بھی کیا اور ساتھ ساتھ قیام پاکستان کے حوالہ سے اپنی کوششوں کو بھی پروان چڑھایایہی وجہ ہے کہ آج ہم ایک آزاد ملک میں رہ رہے ہیں مگر ان سازشیوں نے ہمارا پیچھا نہیں چھوڑا جب بھی انہیں موقعہ ملا انہوں نے خاموش حملہ کردیاآجکل سیاسی جماعتیں اور انکے لیڈر جو کھیل ملک کے ساتھ کھیل رہے ہیں وہ انتہائی خطرناک بھی ہوسکتا ہے ایک طرف مشرف کا ایشو چل رہا ہے تو دوسری طرف الطاف حسین نے ایک نیا تماشا لگا دیا ہے ،ایک طرف بلاول بھٹو نے اپنی سیاسی دوکان سجا کر سوشل میڈیا کے زریعے تیروں کی بارش شروع کررکھی ہے تو دسری طرف میاں نواز شریف کی اپنوں کو نوازنے کی پھر سے لوٹ سیل لگی ہوئی ہے ایک طرف گوادر کی بندرگاہ ہے تو دوسری طرف پاک ایران گیس پائپ لائن ہے ایک طرف انٹرنیشنل سازشیں ہیں تو دوسری طرف ملک کے اندر پرورش پانے والی نفرتیں ہیں حب الوطنی کا درس دینے والے آپس میں ایک دوسرے کی جڑین کاٹ رہے ہیں ایک طرف پیپلز پارٹی ہے تو دوسری طرف مسلم لیگ ن ہے پیپلز پارٹی کا تھنک ٹینک اپنی ساری توانائیوں کے ساتھ حکومت کو باقی اداروں سے لڑانے میں مصروف ہے تو دوسری طرف مسلم لیگ ن کا تھنک ٹینک بھی پیپلز پارٹی کو پریشان کرکے سندھ میں الجھانے جارہا ہے
Pervez Musharraf
اب سب سے پہلے تو ہمیں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ پرویز مشرف کو سزا نہیں ہو سکتی اسکی ایک وجہ ہے کہ آج کے پاکستان میں کسی کے پاس اتنی اخلاقی جرائت ہی نہیں ہے کہ وہ چور کو چور کہہ سکے آپ صرف ہمارے تھانہ کچہری کا نظام ہی دیکھ لیں اور پھر اسکے بعد ہمارے دیہاتوں کا نظام انصاف بھی دیکھ لیں کہ جب بات کو اپنے حق میں لیکر جاناہوتو پھر اس وقعہ کو پنچایت میں پہنچا دیا جاتا ہے تو پھر جسکا پلڑا کرنسی اور بول پچن کے وزن سے بھاری ہوتاہے اسی کے حق میں ہی فیصلہ ہوجائیگا جبکہ ہمارے تھانہ کلچر میں بھی جس چور کے پیچھے سیاستدان یا کوئی اعلی عہدے دار ہوگا اسے پولیس بھی عزت وحترام دیگی اور جس چور کے پیچھے کسی کا ہاتھ نہیں ہوگا وہ اگر ایک بار پکڑا گیا تو پھر مرتے دم تک پولیس کا ہی دم بھرے گا یہ تو تھا ایک عام چور اور جس نے ملک کی حکمرانی چوری کی ہو ،ملک کا آئین چوری کرلیا ہو اور این آر او کے بدلے بڑے چوروں کی سزائیں چوری کرلی ہوں اور پھر اس سے بھی بڑے چور جنہیں قومی اسمبلی میں کفن چور پکارا جائے اور پھر ایسے حکمران جو بڑے چوروں کو تحفظ دینے والے ہوں اور اسکے بدلے میں اپنا تحفظ مانگنے والے ہوں ان سے کسی کو سزا دلانے کی امید رکھنا بہت بڑی حماقت ہی ہوسکتی اس سے زیادہ تواور کچھ نہیں ہاں شائد ڈرامہ میں تھوڑی سے تبدیلی کہیں ہوچکی ہے مگر اسکا انجام بھی شائد سوچا سمجھا ہو کیا ایک ایسے فرد کو ہمارے ملک میں سزا ہو سکتی ہے جو دو مرتبہ ایس ایس جی کا کمانڈر رہا ہو جو آرمی کا چیف رہا ہو اور پھر جو صدر مملکت بھی رہا ہوں ناممکن ہے یہاں پر تو ایک گائوں کے چند پنچائتی چھوٹے سے چور کو ایک چھوٹی سی سزا نہیں ہونے دیتے اور جسکے پیچھے پوری فوج کھڑی ہو اور جسکی حفاطت کا انتظام ایس ایس جی کے کمانڈوز نے سنبھال رکھا ہوا سے کون سزا دے سکتا اور آجکل گلی ،محلے اور تھڑے کی سیاست کرنے والے سمجھ جاتے کہ کون سی سیاسی جماعت نے کون سی چال چل دی ہے اور اسکے پیچھے کس کا ہاتھ ہے تو یہ کتنے دکھ اور شرم کی بات ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کے تھنک ٹینک کیوں اپنی انتقامی سوچ سے باہر نہیں نکلتے سبھی جانتے ہیں کہ پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کو پھنسانا چاہتی ہے اورمسلم لیگ ن والے پیپلز پارٹی کوسندھ میں مصروف رکھنے کے لیے مزید صوبوں میں الجھا رہی ہے اب دیکھنے کی بات یہ ہے کیا یہ سب سیاستدان جان بوجھ کر ایسا کررہے ہیں یاان سے ایسا سب کچھ بے خبری میں ہو رہا ہے اگر کوئی ان سے ایسی حرکتیں کروا رہا ہے تو وہ کون ہوسکتاہے جو پاکستان میں استحکام اور ترقی نہیں دیکھنا چاہتا۔
اب اس بات کو کون سمجھے گا اگر حکمران اور سیاستدان نہیں سمجھنا چاہتے توخدارا اب پاکستان کی وہ عوام ہی سمجھ جائے جو جہالت کے اندھیروں میں قرض کی غلامی میں اور غربت کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے اور کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہم یہ سوچ لیں اور ڈھونڈ لیں کہ ہم کسی ایسے فرد یا جماعت کا ساتھ دیں جوسچا اور حب الوطن پاکستانی ہو جسکی دولت ملک میں جسکے لیڈر ملک میں اور جسکے بچے ملک میں اور جسکا جینا مرنا پاکستان میں ہو اسکے ساتھ چلیں اسکے ہاتھ مضبوط کریںکہ وہ ایسے تمام ملک دشمن افراد کو پکڑ کر انکا احتساب کرکے ایک نیا سویرا دے تاکہ پاکستان اور پاکستانی قوم بھی خوشی سے ہر روز آزادی کا چڑھتا سورج دیکھ سکیں۔