غلامی کی کئی تصویریں ہم وقتا فوقتا معاشرے میں دیکھتے ہیں حق مانگناگویا جرم بن جاتا ہے کوئی روزگار سے جاتا ہے اور کوئی جان سے ۔محکمانہ آمریت کی زندہ مثالیں آج کے دور میں بھی موجود ہیں ۔سرکاری محکموں میں جبری مشقت سے لیکر بہ یک جنبش قلم روزگار چھین لینا ایک عام سی بات ہے ۔احتجاج کرنا، سڑکوں پر آنا اور حق نہ ملنے پر خود سوزی جیسے انتہائی درد ناک اقدام اٹھانا اب کوئی بات ہی نہیں سمجھی جاتی۔ان حالات میںپُر امن معاشرہ تشکیل پاناکیسے ممکن ہے۔۔؟ جب حقوق غضب ہوں اور مزدوروں اور ملازمین کو غلام سمجھ کر بیگار لی جاتی ہو۔پڑھ لکھ کر بڑے عہدے پر فائز ہونا ایک خواب ہوتا ہے ۔لیکن جس معاشرے میں ہم رہ رہے ہیں پڑھنا لکھنا بھی امیر غریب کی تفریق ختم نہیں کر سکا۔ غریب کا بچہ آفسر بھی بن جائے تو بیچارہ اپنے محکمہ کے امیر افسران کا ٹارگٹ ہی بن کر رہ جاتا ہے ۔سونے کا چمچہ لیکر پیدا ہونے والے اعلیٰ افسران کبھی یہ برداشت نہیں کرتے کہ ایک غریب گھرانے کا فرد آفیسر بن کر اس کے ساتھ کرسی پر بیٹھے،ایسے متکبر افسران اپنے اختیارات اور تعلقات استعمال کرکے اپنے ماتحت ملازمین کودور دراز علاقوں میں ٹرانسفر کرا کر اپنی جھوٹی انّاکی تسکین کا سامان کرتے ہیں ایسی صورت میں دلبرداشتہ ہو کر اکثر نوکری چھوڑ دیتے ہیں یا پھر خودکشی ہی اپنا مقدر سمجھتے ہیں۔
بدقسمتی سے محکمانہ حقوق توکجا انہیں بنیادی انسانی حقوق بھی مانگنے سے نہیں ملتے ۔فریاد کریں تو کس سے کریں ۔کہیںشنوائی ہی نہیں ہوتی،ایسے میں یہ لوگ کہاں جائیں ۔اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ۔یوں تو سبھی سرکاری اداروں میں یہی صورت حال ہے لیکن محکمہ لاہو سٹاک پنجاب میںمیں سارا نظام اس قدر تکلیف دہ ہو چکا ہے کہ جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا ،اس محکمے میں 1700 ویٹرنری ڈاکٹرز سمیت 3700 کا عملہ اعلی افسران کے ظلم و ستم کا شکار نظر آتا ہے ۔گھروں سے کئی سو کلو میٹر دور تعیناتی اور بنیادی انسانی حقوق سے محرومی ان بیچاروں کا مقدر ہے پچھلے دنوں محکمانہ سطح پر عدم توجہی اور عدم شنوائی کی وجہ سے ویٹرنری ڈاکٹرز سڑکوں پر نکل آئے کہ شاید اس طرح ان کی بات سن لی جائے۔مگرافسر شاہی کو یہ کب برداشت کہ کوئی ان سے اپنے حق کی بات کرے ،جس کانتیجہ وہی نکلاجو لا وارثوں کے ساتھ ہوتاآیا ہے۔۔شو کاز نوٹسز حق مانگنے والوں کا مقدر ٹھہرے۔ یہ لوگ کسی قسم کے ناجائز مطالبات کیلئے احتجاج کر رہے تھے اور نہ ہی ناجائز مراعات کے طلبگار تھے ،حکومت اورمحکمہ ہذاء کے ذمہ داران کو ان کے جائز مطالبات تسلیم کر کے ان کو ریلیف دینا چاہیے تھا مگرڈھاک کے وہی تین پات ۔۔۔معاملے کو کوئی اہمیت ہی نہ دی گئی ،الٹا ملازمین کیلئے مزید الجھنیں پیدا کر دی گئیں۔
ویٹرنری ڈاکٹرز نے 2015 ء میں محکمہ ہذاء کی بین الااضلاعی ویکسین نیشن میں پورے عملہ کے ساتھ بھرپور حصہ لیا تھا ادارے نے کوئی بھی سہولت میسرنہ ہونے کے باوجود ذاتی خرچ پر اس عمل کو پورے پنجاب میں مکمل کیا اور اس کا ڈیٹا 9211 پر اپ لوڈ بھی کر دیاتھا۔محکمہ لائیو اسٹاک نے اپنے ملازمین کے لئے” سول سرونٹ ایکٹ” میں انہیں ملنے والی رعایت بھی عملی طور پر معطل کر رکھی ہے ۔پنجاب لائیو اسٹاک کے ایک اعلیٰ آفسر نے سارے اختیارات اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں اور وہ اپنی صوابدید پر اکثر جونیئرز کو سنیئرز پرافسر لگا د یتے ہیں ،خوف و ہراس کا شکارپنجاب لائیو اسٹاک کے ملازمین اپنے اہل خانہ سے سینکڑوں میل دور بے یارو مددگار اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ ملازمین کو بوگس ریکارڈ تیار کرنے یعنی کارروائیاں ڈالنے پرمجبور کرنا محکمہ کے افسران کا وطیرہ بن چکا ہے تا کہ کاغذوں میں اپنی کارکردگی دکھا سکیں ۔محکمے کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو بہت سی خرابیاں سامنے آ سکتی ہیںتاہم چند ایک کی نشاندہی ضروری ہے جو کچھ اس طرح ہیں کہ عطائیت نے اس محکمہ کا رخ کیا تو ویٹرنری پر وفیشنل کوالیفائیڈ پریکٹس کے ذریعے ترقی دینے کی بجائے بذریعہ بریڈنگ اتھارٹی عطائیت کی سرپرستی کی گئی۔
اے ڈی پی اسکیموں کے ذریعے ملازمین کو چوبیس گھنٹے مصروف رکھا گیا ۔حالانکہ یہ اسکیمیں دودھ گوشت کی پیداوار میں ہر گز فائدہ مند نہیں بلکہ یہ ملکی وسائل کا ضیاع ہیں ۔محکمہ لائیو اسٹاک نے اپنے قیمتی اثاثہ جات فروخت کر دئیے ،سرکار کی طرف سے دی گئی موٹر سائیکلز کی اقساط بھی ویٹرنری ڈاکٹرز کو دینے کے لئے مجبور کیا گیا۔ ان خرابیوں کے باعث گھروں سے دور قلیل تنخواہ میں محکمہ کیطرف سے ظلم و ستم کا شکار بنیادی انسانی حقوق سے محروم لائیو اسٹاک پنجاب کا عملہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوا تو ایک دوسرے کو مرنے مارنے پر تیار ہو گیایوں ویٹرنری اسسٹنٹ نے ایک ڈاکٹرکو قتل کر دیا ۔ ایک ڈاکٹر کو زبردستی ضرورت سے زیادہ ویکسین میڈ یسن دے کر ”پیڈا قانون” کے تحت ایسا پھنسایا گیاکہ وہ جانوروں کی چچڑ مار دوا پی کر خودکشی کرنے پر مجبور ہو گیا جبکہ وہ غریب والدین کا اکلوتا کفیل تھا ۔ایک اورویٹرنری اسسٹنٹ کو دس ماہ تنخواہ کی بندش اور بار بار تبادلے نے ذہنی طور پر اتنامفلوج کیا کہ وہ بھی خودکشی کر گیا ۔ایسے آئے روز ہونے والے واقعات حکومت اور محکہ ہذاء کے ذمہ داران کیلئے لمحہ فکریہ ہیں۔اس حوالے سے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے بھی کئی بار اپیلیں کی جا چکی ہیں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہو پائی ۔ ایک بار بھی ہم وزیراعلیٰ پنجاب اور چیف سیکرٹری پنجاب کی توجہ اس جانب مبذول کروانا چاہتے ہیں کہ خدارا ملازمین کی مشکلات کا احساس کریں اور انہیں ان کے حقوق دلانے کیلئے اقدامات اٹھائیں ،ویٹرنری ڈاکٹر ز سمیت محکمہ لائیو اسٹاک کا دیگرعملہ بھی انسان ہے اور اپنے مسائل کا حل چاہتا ہے لہذا ء اس پر توجہ دی جائے۔