تحریر : علی عمران شاہین بس میں بیٹھے تمام مسلمان بہن، بھائیوں کو السلام علیکم … سلام کا جواب دینا فرض ہے… سب کہو، وعلیکم السلام اور بے شمار نیکیاں کمائو… میری بات ذرا غور سے سننا… کہ بات سننا ہمارے پیارے نبی کا حکم ہے… اس کے بعد… گفتگو کرنے والے نے وہی کہانی شروع کر دی کہ بیماریاں بہت زیادہ ہیں… ڈاکٹر فیل ہو گئے… ہر کوئی دھکے کھا رہا ہے… صحت بھی برباد… پیسے بھی برباد… ڈاکٹر لوٹ رہے ہیں لیکن میں آپ کو ایسا نسخہ بتاتا ہوں… گھر پر خود بنا لو…ہر مرض سے نجات پا لو… اگر ممکن نہیں تو میرے پاس ابھی تیار ہے… قیمت نہ 100 نہ 50 نہ 30 بلکہ صرف 20 روپے ہے… اور پھر… اس نسخے سے اس نے انسانی جسم کی سر سے پائوں تک اندرونی و بیرونی ہر بیماری کا مکمل خاتمہ کرنے کا دعویٰ کر دیا۔ کسی نے قسمیں اٹھائیں تو کسی نے نہ اٹھانے کاکہہ کر بے وقوف بنایا۔ کسی نے نمبر دیا تو کسی نے اپنا پتہ اور پھر دوائی بیچ کر یہ جا اور وہ جا…یہ مناظر میری طرح آپ سب نے بھی بے شمار مرتبے دیکھے سنے ہوں گے لیکن چند دن پہلے تو اس میں ایک کمال حیران کن اضافہ دیکھنے کو ملا۔
بس میں دوائی بیچنے والے نے ابھی ابتدائی کلمات کہے ہی تھے کہ ایک مسافر نے جرأت سے روک دیا کہ ”بس کرو! لوگوں کی صحت و جان سے کھیلنا بند کرو… دین کے نام پر فراڈ ہم برداشت نہیں کر سکتے… اگر تم اتنے ہی لائق و قابل ہو تو جا کر ہسپتال کھول لو… انگریز تمہیں لے کیوں نہیں جاتے، وغیرہ وغیرہ… دوائی بیچنے والے کے پاس جواب کوئی نہ تھا سو اس نے کہا کہ ”میں بچوں کو بھوکا بٹھا دوں؟”۔ نہیں بھیک مانگ لو ہم سب دیں گے لیکن جانوں سے کھیلو… اب تو وہ خاموش ہو گیا… یوں ایک شخص کی دلیری نے کئی ایک کو صحت برباد کرنے کے اس کھیل سے بچا لیا تھا۔ اس روزدوائی بیچنے والے نے تو کہانی یہاں سے شروع کی تھی۔ کہتے ہیں کہ شوگر کا کوئی علاج نہیں لیکن ”کوہڑ تمہ” لے کر یوں پائوں تلے مسلو… آدھے گھنٹے بعد منہ کڑوا ہو اور شوگر ختم ہو چکی ہوگی۔
اس کے ان الفاظ نے مجھے بھی سوچنے اور بولنے پر مجبور کر دیا کہ ”شوگر کا علاج کڑوے سے…؟” یعنی عقل کے ان اندھوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ شوگر چونکہ میٹھے کا نام ہے اور شوگر کے مریضوںکو میٹھا منع ہوتا ہے، لہٰذا اس کا علاج کڑوے سے ہو گا۔ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ شوگر کا مرض تو اس وقت لاحق ہوتا ہے جب انسانی لبلبہ وہ انسولین پیدا کر نا بند کر دے جو وہ معدہ میں بھیجتا ہے تاکہ خوراک کو طاقت میں بدلا جا سکے۔ اس بندش سے خوراک میں موجود کاربوہائیڈرٹیس کے طاقت میں بدلنے کا عمل رک جاتا ہے اور شوگر کا مرض لاحق ہو جاتا ہے۔ یعنی بنیادی طور پر اس کا تعلق لبلبے میں انسولین کے بننے یا نہ بننے سے ہوتا ہے۔ انسان نے جب سائنس ترقی کی منازل طے کیں تو اس نے انسانی لبلبے کے ذریعے بننے والی یہی انسولین لیبارٹریوں میں بنانے کا عظیم کارنامہ انجام دے دیا تو جسم میں داخل کرنے کا انتظام بھی کر لیا۔
Scientist
سائنسدان اتنا کچھ کرنے میں تو کامیاب ہو گئے لیکن کمال یکھیے کہ وہ ہمارے بس حکیموں کے ”کوہڑتمے” تک نہ پہنچ سکے کہ جو اس مرض کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے۔ ویسے ان ”کوہڑ تما” حکیموں سے کبھی پوچھ لیں کہ شوگر کیوں ہوتی ہے؟ تو ان کی حقیقت کھل جائے گی۔اسی لئے توجب شوگر ٹیسٹ کرانے کا مرحلہ آتا ہے تو پھر انہی سائنسی لیبارٹریوں میں جانے کا مشورہ دیتے ہیں جو میڈیکل سائنس نے بنائی ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ٹیسٹ کے لئے بھی یہ ”کوہڑتمہ” وغیرہ رکھ لیتے۔ ویسے ان لوگوں کی ”قوت رسائی” کو بھی داد دینا پڑتی ہے کہ جو کسی بیماری کا سائنسی نام سامنے آتے ہی سائنس دانوں سے بھی پہلے اس کا مکمل علاج نکال کر شفا بانٹنا شروع کر دیتے ہیں اور چند رویے کے نسخے سے ہر بیماری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتے ہیں۔
یوں اس میڈیکل سائنس کو بھی فوری مات دے دیتے ہیں کہ جس نے گزشتہ چند دہائیوں میں علاج معالجے کی دنیا الٹ پلٹ کر رکھ دی ہے۔ انسان تو آج نیوکلیئر میڈیسن کے ذریعے ایٹمی صلاحیت کو بھی علاج میں استعمال کر رہا ہے اور کل تک لاعلاج کہلانے والی بیماریوں کا علاج کیا جا رہا ہے۔ میڈیکل سائنس نے انسانی اعضاء کی تبدیلی کا مافوق العقل سنگ میل عبور کر لیا ہے جس کی حقیقت کے بارے سوچنا بھی خوابوں کی دنیا لگتی ہے۔ انسانی اعضاء میں باریک ترین رگیں، آنکھ اور گردے میں ہوتی ہیں ۔ آج کی سائنس یہی اعضاء تبدیل کرتی اور ایک کی رگیں کاٹ کر دوسرے انسان کے اندر داخل کر کے انہیں بالکل صحیح صحیح جوڑ دیتی ہے۔ پھر وہ عضو دوسرے انسان کے اندر کام شروع کر دیتا ہے۔
آج تو ڈاکٹر ہزاروں میل دور بیٹھ کر مریضوں کے انتہائی حساس و باریک آپریشن کرنے کے قابل ہو رہے ہیں۔ ہڈیوں کے اندر موجود گودے تک کو تبدیل کیا جاتا ہے۔ انسانی جسم کے علاج معالجے کی اس تحقیق پر دنیا بھر میں جگہ جگہ ماہانہ اربوں ڈالر خرچ ہو رہے ہیں۔ ایک بیماری کے لاتعداد شعبے بنا کر ان کے علاج کے لئے دنیا کے لائق ترین انسانوں کی بڑی بڑی ٹیمیں دن رات مغز کھپا رہی ہیں۔ جدید سے جدید مشینیں اور دوائیاں بنا رہی ہیں لیکن یہ حکیم بیٹھے بیٹھے چند ٹکوں میں سب کچھ آر پار کر رہے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ عوام غریب ہے اور ان کی قسموں، قرآنوں پر یقین کر کے ان کا نسخہ لے بیٹھتے ہیں اور پھر جو ہوتا ہے خدا کی پناہ…
Doctors
آخر کیا وجہ ہے کہ انگریز ہمارے ملکوں سے ذہین اور لائق و فائق ڈاکٹرز، انجینئرز اور دوسرے لوگ بھاری معاوضے پر تلاش کر کر کے لے جاتے ہیں۔ ان کے تحقیق کے میدان ہمارے لوگوں سے ہی سجے ہیں لیکن ایک پھونک سے دنیا ادھر ادھر کرنے والے ”حکماء کرام” کی طرف ان کی نگاہ نہیں جاتی۔ کمال دیکھیے۔ چند سال پہلے تک ہیپاٹائٹس کا لوگ نام نہیںجانتے تھے۔ میڈیکل سائنس نے جگر کے اس مرض کے مختلف ادوار و درجات یعنی (Stages) کو وائرس کی نوعیت دیکھتے ہوئے آسانی کے لئے اس کے اے، بی، سی، ڈی وغیرہ نام رکھ دیئے… اور اس کی بے شمار قسمیں بھی لگ سے واضح کیں۔ ادھر نام آنا تھے، ادھر حکیموں نے اس کا مکمل و شافی علاج دینے کا دعویٰ کر کے اندھی تشہیر شروع کر دی۔ اب بے شمار ذہین و فطین لوگوں نے جو برسہا برس لگا کر اور بے تحاشہ سرمایہ خرچ کر کے تحقیق کی تھی، کو بتائیں کہ آپ کے مرض کا نام رکھتے ہی پاکستان میں تو اس کا مکمل و شافی علاج بھی آ چکا ہے تو شاید وہ کہیں خودکشیاں ہی نہ کر لیں۔
یہ لوگ ایک اور گمراہ کن پراپیگنڈہ کرتے نظر آتے ہیں کہ دیکھو جناب! دور جدید میں نئی سے نئی بیماریاں آ گئی ہیں… اور یہ سارا سائنسی ترقی کا نتیجہ ہے… ڈاکٹروں کے علاج کا کیا دھرا ہے… وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ عقل کے ان اندھوں کو نہ اس بات کا پتہ ہے نہ سمجھ کہ یہ سب بیماریاں تو شروع سے ہی چلی آ رہی ہیں۔ اب سائنس نے تحقیق کے میدان کو وسیع کرتے ہوئے، ان بیماریوں کی نوعیت کو سمجھنے اور علاج کی سہولت کے لئے مختلف نام دیئے اور درجے متعین کئے، جو پہلے نہیں تھے کیونکہ سائنسی ترقی جو پہلے اس قدر تیز نہیں تھی لیکن ہمارے جاہل لوگوں نے انہیں ”نئی بیماریوں” کا نام دے دیا اور اپنا پیٹ بھرنا شروع کر دیا۔
ہاں یہ بھی ذہن میں رہے کہ میڈیکل سائنس کے میدان میں بھی ایسے شگوفے اور جعل ساز کم نہیں۔مریضوں کو پیسے بنانے کے لئے بلاوجہ لیبارٹری ٹیسٹوںکے ذریعے لوٹا جاتا ہے تو کہیں جعلی ادویات تو کہیںطاقت کی مہنگی لیکن فضول ادویات ،ادویہ ساز کمپنیوں ،معا لجین اور میڈیکل سٹورز کا باہمی گٹھ جوڑ بھی لوٹ مار میں کسی سے کم نہیں۔سو ہر پل ہر جگہ آنکھیں کھلی رکھے بغیر چارا نہیں۔شاید اس لئے کہا کرتے ہیں ۔ جاگتے رہنا، پر ساڈے تے نہ رہنا۔