کراچی (جیوڈیسک) ایل این جی کی درآمداور قیمت کے حوالے سے حکومت کی پراسرار خاموشی آخرکار ایک تنازعے کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ سندھ حکومت نے ایل این جی کی درآمدپر تحفظات کااظہار کرتے ہوئے درآمدکیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کافیصلہ کیاہے۔ ایل این جی کی درآمداور ڈسٹری بیوشن میں بھی ابہام موجود ہیں۔ ذرائع نے ایکسپریس کو بتایاکہ درآمدی ایل این جی کی جمعے کی دوپہرسے پنجاب کوترسیل شروع کردی گئی ہے۔
درآمدی ایل این جی سوئی سدرن گیس کمپنی کے نیٹ ورک سے گزرتی ہوئی کیپکوکو فراہم کی جارہی ہے۔ وفاقی حکومت تاحال ایل این جی کی ملکیت، درآمدی قیمت اورحکومتی اداروں پی ایس او، سوئی سدرن گیس کمپنی اورسوئی ناردرن گیس کمپنی کے کردارکی بھی وضاحت نہیں کرسکی۔ قطرسے ایل این جی کی درآمد کاسرکاری سطح پرمعاہدہ کیے بغیرحکومت ایل این جی درآمدنہیں کرسکتی۔ اگرایل این جی کی پہلی کھیپ حکومت نے درآمدکی ہے توپھر یہ ایل این جی کس قانون اورمعاہدے کے تحت درآمد کی گئی۔
ایل این جی کی ملکیت کے بارے میں وفاقی وزارت پٹرولیم وقدرتی وسائل نے وضاحت کی ہے کہ ایل این جی پاک سعودی فرٹیلائزرنے درآمدکی ہے تاہم درآمدکا انتظام پاکستان اسٹیٹ آئل کمپنی نے کیاہے۔ ایل این جی کی قیمت بھی ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ آزادذرائع کاکہنا ہے کہ ایل این جی کی قیمت 7سے 8ڈالر فی ایم ایم سی ایف ظاہرکی جائے گی لیکن یہ سبسڈی شدہ قیمت ہے، اصل قیمت15ڈالر فی ایم ایم سی ایف تک جاسکتی ہے کیونکہ کم مقدارمیں فاسٹ ٹریک پردرآمدی لاگت زائد ہوگی۔ ایل این جی کی درآمدکا معمہ آج(ہفتے کو)حل ہونے کاامکان ہے۔
وفاقی وزیرپٹرولیم وقدرتی وسائل شاہدخاقان عباسی ہفتے کوپورٹ قاسم دورے کے موقع پرپی ایس او، سوئی سدرن گیس کمپنی، اینگروایل این جی ٹرمینل لمیٹڈکے اعلیٰ حکام کے ہمراہ پریس بریفنگ میں میڈیاکو تفصیلات سے آگاہ کریںگے۔ حکومت کی حکمت عملی یہ ہے کہ ایل این جی کی درآمدپر اٹھنے والے سوالات کوفاسٹ ٹریک ایل این جی درآمد کرکے کم کیا جاسکے۔ اس مقصد کے لیے نجی شعبے کی آڑلے کرایل این جی درآمد کی گئی تاکہ قیمت ظاہرنہ کرنے کاجواز پیداکیا جاسکے۔
ادھرٹرمینل آپریٹرنے اپنی ذمے داری پوری کرکے اس تنازعے سے ہاتھ کھڑے کرلیے ہیں کیونکہ ایل این جی درآمدنہ ہونے کی صورت میںحکومت ٹرمینل آپریٹرکو یومیہ 2لاکھ 72ہزار ڈالرکی پینالٹی اداکرے گی۔ ایل این جی کی درآمد کی ڈیل پر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے اعتراضات بھی حکومت کی مشکلات بڑھانے کاسبب بن رہے ہیں۔ ایل این جی کی درآمدمیں شامل اسٹیک ہولڈرزنے حکومت پر زوردیا ہے کہ پہلے اس ڈیل میں شفافیت کے معاملات حل کیے جائیں۔