کراچی (جیوڈیسک) بین الاقوامی دباؤ اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے ایل این جی کی درآمد میں شفافیت سے متعلق اعتراضات نے پاکستان میں ایل این جی کی درآمد کے منصوبے کا مستقبل خطرے میں ڈال دیا ہے۔
جبکہ قطر کی گیس سپلائر کمپنی کی جانب سے پورٹ قاسم کی مطلوبہ گہرائی، ایل این جی کی آمد کے دوران جہازوں کی آمدورفت کی مینجمنٹ اور روشنی کے انتظامات پر اعتراضات نے بھی منصوبے کو تاخیر سے دوچار کرنے کی راہ ہموار کردی ہے۔
پاور سیکٹر کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ایل این جی کی درآمد حکومت کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے، بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو ایل این جی فراہم نہ کرنے کے لیے مسلسل دباؤ کا سامنا ہے۔
تاہم سیاسی قیادت نے اس دباؤ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایل این جی کے ذریعے پاکستان میں توانائی کا بحران کم کرنے کے سلسلے میں موسم گرما میں پاور اور سی این جی سیکٹر کی طلب پوری کرنے کے لیے ایل این جی کی درآمد کا فیصلہ کیا۔
اس فیصلے کی راہ میں بڑی رکاوٹ قطر کی گیس سپلائی کمپنی کی جانب سے پورٹ قاسم پر ڈرافٹ کی مطلوبہ گہرائی اور دیگر انتظامات پر اعتراضات کی شکل میں پہلے پارسل کی درآمد سے کچھ روز قبل سامنے آئے جس کے بعد ایل این جی کی درآمد میں مزید تاخیر کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔