پشاور (جیوڈیسک) خیبر پختونخواہ میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے علاوہ فراہمی میں غیر اعلانیہ تعطل شدید گرم موسم میں شہریوں کی پریشانی میں مزید اضافے کا باعث بن رہا ہے اور اس معاملے پر صوبے اور وفاق کے درمیان ایک دوسرے پر الزام تراشی کے علاوہ تاحال کوئی خاطر خواہ اقدام دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔
بجلی کی بندش اور عدم فراہمی کے خلاف پشاور سمیت مختلف شہروں میں مظاہرے ہو رہے ہیں اور بعض مقامات پر مشتعل مظاہرین کی طرف سے بجلی فراہم کرنے والے ادارے کے دفاتر پر دھاوا بھی بولا گیا۔
صوبے میں حکمران جماعت ‘پاکستان تحریک انصاف’ کے رکن صوبائی اسمبلی فضل الہی کی قیادت میں بھی اس جماعت کے کارکنوں اور اہل علاقہ نے پشاور میں ایک گرڈ اسٹیشن پر حملہ کیا۔
صوبائی قانون ساز نے الزام عائد کیا کہ مناسب مقدار میں بجلی ہونے کے باوجود وفاقی حکومت کی ایما پر صوبے کو بجلی فراہم نہیں کی جا رہی۔
لیکن وفاق میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے عہدیداران اس الزام کو مسترد کرتے ہیں اور بجلی فراہم کرنے والے ادارے کا موقف ہے کہ بجلی کی طلب اور رسد میں بڑھتے ہوئے فرق کے علاوہ جن علاقوں میں بجلی چوری کے واقعات زیادہ ہیں وہاں بجلی کی فراہمی بند ہے۔
فضل الہی نے اتوارکو وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اس موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت نے پہلی مرتبہ بجلی فراہم کرنے والے ادارے واپڈا کو پولیس فورس دی ہے جن کی مدد سے کروڑوں روپے کے واجبات کی محکمے کو وصولی ممکن ہے۔
“واپڈا کا پولیس اسٹیشن ہے یہ تحریک انصاف کی حکومت نے دیا ہے اس سے پہلے نہیں تھا۔ یہ صرف مسئلے پر سیاست کی جا رہی ہے، سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے عوام کو برباد کرنا یہ کہاں کی سیاست ہے۔”
ادھر وزیراعظم کے مشیر امیر مقام نے اتوار کو پشاور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج کی آڑ میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا کسی صورت بھی درست نہیں اور اختلاف رکھنے والوں کو بیٹھ کر بات کرنی چاہیے۔
صوبے میں حزب مخالف کی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی سردار حسین بابک کہتے ہیں کہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو اس مسئلے کو جلد حل کرنا ہو گا کیونکہ اس شدید گرمی میں بجلی کی عدم فراہمی سے لوگوں کا جینا دو بھر ہو گیا ہے۔
“مرکزی اور صوبائی نمائندوں کو بیٹھ کر اس پر بات کرنی چاہیے، اور یہ صوبائی حکمران جماعت کے لوگ جا کر گرڈ اسٹیشن پر جو حملے کر رہے ہیں اس سے تو وفاق کو موقع مل جائے گا کہ دیکھیں صوبائی حکومت تعاون نہیں کر رہی۔”
لیکن فضل الہی کا دعویٰ ہے کہ وہ خود اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکام کے ساتھ بیٹھے لیکن اس کے باوجود معاملہ جوں کا توں ہے۔