ذرا پسِ آئینہ بھی دیکھئے جناب!

Time

Time

سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ مضمون کی ابتدا کہاں سے اور کیسے کروں! آج کے پر تعیش دنیا میں انسان اتنا پست ہو چکا ہے یا کر دیا گیا ہے کہ اس کی نظروں میں سوائے دو وقت کی روٹی کے اور کچھ نہیں سما رہا ہے۔ مانا کہ روٹی زندگی کی لازمی ضرورت ہے مگر کیا بے اہمیت ہوکر اسے کمانا صحیح ہے۔

میرے خیال میں ایسا درست نہیں کیونکہ آپ ہی تو ہیں اس ملک کی شہہ رگ، آپ ہی تو ہیں دہقان، آپ ہی تو ہیں بزنس مین، آپ ہی تو ہیں فیکٹری مالکان، آپ ہی تو ہیں اداروں کو چلانے والے، یعنی کہ آپ کی ہر جگہ شرکت لازمی جز ہے تو پھر اپنی تقدیس و حرمت کو بے معنی کیوں کر رہے ہیں۔ آج کا معاشرہ ایک خطرناک ڈگر پر گامزن ہے یعنی کہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ” سمجھ میں نہیں آتا کہ انجام گلستاں کیا ہوگا؟میں تو یہاں پر صرف اس شعر سے کام چلائوں گا۔

لگ رہا ہے لیڈروں کی چال سے
حال اب اچھا نہیں ہوگا ”عوام ” کا

ملک قرضوں میں جکڑا ہوا ہے، پھر بھی موجودہ حکومت ترقی کے بے شمار کاروائیوں میں مصروفِ عمل ہے جس کا علم ہم سب کو میڈیا اور اخبارات کے ذریعے تسلسل کے ساتھ مل رہا ہوتا ہے، دوسری طرف خان صاحب نے آزادی کے مارچ کا اعلان کر رکھا ہے اور پھر قادری صاحب نے عوا م میں انقلاب کی روح بھی پھونک دی ہے۔ اور انقلاب کے بعد کیسا ہوگا پاکستان کو بھی خواب عوام کے دلوں میں سما دیا ہے۔ میڈیا بریفنگ میں تو مستقبل کا پاکستان عوام کے لئے بہت ہی خوبصورت منظر پیش کر رہا ہے۔

تیسری طرف آپ عوام ہیں۔ فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ آپ کو کس طرح کا پاکستان چاہیئے، اب فیصلے میں دیر کرنا آپ کی نسلوں پر بُرے اثرات اور پستی کی ڈگر بھی مرتب کر سکتی ہے۔ رمضان المبارک کا آخری عشرہ تیزی سے گزرتا جا رہا ہے ، پھر عید اور سنا ہے کہ عید کہ بعد دمام دم مست قلندر بھی ہے۔ خدا خیر کرے! ویسے ہم سب کو ہر لمحہ اور ہر وقت آئینے کے سامنے ہی نہیں رہنا چاہیئے بلکہ کبھی کبھی دل سے پسِ آئینہ بھی ہونا چاہیئے تاکہ حالات کے رُخ کا درست اندازہ کیا جا سکے۔

ٰیہ صحیح ہے کہ ملک میں لا اینڈ آرڈر کی کمزوری جرائم کے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ ہے، لیکن قانونی کاموں میں سیاسی مداخلت بھی جرم کو بڑھانے میں اہم رول پلے کر رہی ہے۔ آج پاک افواج ملک میں امن و امان قائم کرنے کے لئے دہشت گردوں سے نبرد آزما ہیں تاکہ عوام کو اور اس عظیم وطن کو امن و امان مل سکے۔ ایسے میں فتنہ بازوں کی فتنہ گری انہیں کسی بھی طرح زیب نہیں دیتی۔ خدا را پاکستان کی طرف دیکھئے، یہاں کے عوام کی طرف دیکھئے، پاک افواج کا حوصلہ بلند کیجئے، تاکہ یہ عرضِ وطن اور یہاں کے عوام ترقی کر سکیں۔ یہ زمانہ اور یہ وقت آپس میں تفرقہ پھیلا کر ایک دوسرے سے دور رہنے کا نہیں بلکہ یک جان ہوکر ، ایک ساتھ مل کر ترقی کے خواب دیکھنے کا ہے۔

مگر یہ کہتے ہوئے مجھے افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں اتحاد و اتفاق کا فقدان بہت زیادہ ہے۔ اور یہی وہ وجہ ہے جس کی وجہ سے ہم سب گونا گوں مسائل سے دوچار ہیں۔اسی لئے پھر کہتا ہوں کہ ہمیں باہر دیکھنے کے بجائے اندر دیکھنا چاہیئے۔ دوسروں کو آئینہ دکھانے کے بجائے پسِ آئینہ بھی دیکھنا چاہیئے۔
ہر طرف دہشت کا راج ہے، ہر سُو نا انصافی ہے، کرپشن کا بازار گرم ہے۔ چائلڈ لیبر پروان چڑھ رہی ہے اور تعلیم ناپید ہوتی جا رہی ہے، لوگ بھوک سے اور گولیوں سے مر رہے ہیں، غریب اپنے جسم کے اعضاء بیچ کر اپنے بچوں کا پیٹ بھر رہا ہے۔

Inflation

Inflation

مہنگائی اس قدر ہے کہ اشیائے خورد و نوش عوام کی پہنچ سے دور ہو چکی ہے، بجلی کی لوڈشیڈنگ بھی اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے اور جب یہ مضمون لکھ رہا ہوں تو یقین جانیئے کہ سحر سے لے کر جمعة الوداع کا اختتام ہو چکا ہے مگر بجلی کراچی میں نہیں ہے، سنا ہے کہ بریک ڈائون ہوا ہے،اور ابھی تک بجلی غائب ہی ہے۔

تو سوچیئے کہ ہلکی سی بوندا باندی میں اتنا بڑا بریک ڈائون تو تیز بارش میں بجلی کا کیا ہوگا؟ واہ ری K-Electricتیری شان واقعی نرالی ہے ،پانی کا رونا کیا رونا، چار مہینے سے کراچی والوں پر پانی بند ہے، کہیں ہے اور کہیں نہیں، شہر قائد میں بس یوں کہہ لیں کہ کربلا کا سماء ہے اور کوئی پُرسانِ حال نہیں، اور ایسے میں حکومت کہتی ہے کہ سب اچھا ہے ان کے لیئے یہ سطر ہی کافی ہے کہ ” نشیمن سے دھواں اُٹھتا ہے تم کہتے ہو کہ ساون ہے۔

پاکستان میں جہاں مختلف ذاتوں ، فرقوں، رنگوں، نسلوں کے ساتھ ساتھ دنیا کے تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں، مگر پھر بھی قومی یکجہتی ایک سوالیہ نشان ہے، سوالیہ نشان یوں کہ آزادی سے لے کر آج تک ہم سب میں قومی یکجہتی کا انتہائی فقدان رہا ہے اور یہ فقدان اب ایک ناسور بن چکا ہے جس کی وجہ سے ہم اس تیز ترین ترقی یافتہ دنیا میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ کہا یہ جاتا ہے کہ ہم کسی سے Dictationنہیں لیتے دوسری طرف سیاسی جماعت کے لوگ ہی اس کا بھانڈا پھوڑ دیتے ہیں، کل ہی ایک بیان اخبارات میں یہ پڑھا گیا کہ امریکہ سے معاہدہ ہوا تھا کہ پندرہ سالوں تک یعنی کہ تین حکومتوں تک ملک میں مارشل لاء نہیں لگے گا۔

ایسا کوئی معاہدہ ہوا یا نہیں یہ تو ایوانِ اقتدار اور حزبِ اختلاف والے ہی بتا سکتے ہیں، سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے یہ بھی وہی لوگ جانتے ہیں، مگر ایسے بیانات کے بعد یہ بات تو واضح ہو گئی ہے کہ Dictationاس ملک میں موجود ہے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ جلد سے جلد ملک کو قلیل مدت میں ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کیا جائے، مگر مستقبل قریب میں بھی ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔

نہ جانے یہ خواب کب شرمندۂ تابیر ہوگا۔ ہمارے مذہب اسلام کے مطابق ملک کا حکمران دھرتی پر اللہ کا خلیفہ یا جانشین کی حیثیت رکھتا ہے یہ بات سبھی لوگ جانتے ہیں کہ اللہ کی نوازشیں بلا کسی امتیاز کے سب بندوں کے لئے یکساں نوعیت کی ہوتی ہیں، جیسے کہ ہوا، پانی، سورج کی روشنی ، چاند کی چاندنی، بارش کا برسنا وغیرہ کی فیاضیوں میں اللہ تعالیٰ کسی رنگ و نسل ، ذات پات، یا مذہبی امتیازات کو روا نہیں رکھتا ہے۔ اسی طرح ملک کے حکمران کو بھی بحیثیت خلیفہ یا جانشین کے اپنی نوازشوں میں یا انصاف میں کوئی امتیاز برتنے کی گنجائش نہیں ہونی چاہیئے۔ اس سلسلے میں راقم کا خیال ہے۔

اس مختلف المزاج، مختلف المذاہب اور مختلف رنگ و نسل کے لوگوں والے ملک میں قومی یکجہتی اور بھائی چارے کی نہج کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ علاقائی، مذہبی اور نسلی امتیازات جیسے رجحانات کے جڑوں کو اُکھیڑ کر ایک ایسا انسان دوست معاشرہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے جس میں کسی بھی انسان کو کسی انسان کے ساتھ کوئی بغض نہ رہے بلکہ ہر ایک کو انسانی فلاح و بہبود کا خیال رہے۔یہی حکمرانوں کا زیور ہونا چاہیئے کیونکہ یہی اللہ کی منشاء بھی ہے۔خدا اس ملک کو اور اس ملک کے غیور عوام کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔آمین

Jawed Siddiqi

Jawed Siddiqi

تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی