امت مسلمہ کو مبارک ہو کہ ان کی زندگی میں ایک بار پھر ماہ صیام آگیا ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس ماہ کا شدت سے انتظار کرتے ہیں اور پھر بھرپور اہتمام کے ساتھ روزے رکھتے ہیں۔ بڑے بدنصیب ہیں وہ لوگ جو اس ماہ کو اپنی زندگی میں پاتے تو ضرور ہیں مگر اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے ۔ان کے نصیب میں نہ روزے ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ اس ماہ میں نیکیوں کی سیل سے فائد ہ اٹھا سکتے ہیںبلکہ اپنے لیے جہنم کی آگ مزید تپاتے ہیں۔ رمضان المبارک کا مہینہ مسلمانوں کے لیے خوشی کا مہینہ ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے۔
جنت کے آٹھ دروازوں میں سے ایک دروازہ ایسا ہے جس سے صرف روزدار داخل ہونگے۔ انسان ہی نہیں اس ماہ ہر جاندار، فرشتے اور جنات سب اللہ کی عبادت میں مشغول ہوتے ہیں۔ وہ ان نیکیوں کے بہتے ہوئے سمندر میں نہا کر اپنی آخرت کو جہنم کی آگ سے بچا لیں اور اپنے رب کو راضی کر کے جنت کے حقدار بن جائیں۔ رمضان المبارک ایک برکتوں والا مہینہ ہے ۔اس ماہ میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو خود اجر دیتے ہیں اوراس ماہ میں اللہ تعالیٰ نیکیوں کا پہاڑ لگا دیتے ہیں۔ اب یہ مسلما ن پر منحصر ہے کہ وہ ان نیکیوں کے پہار سے کتنا فائدہ اٹھاتا ہے؟
جہاں مسلمان اتنے ذوق و شوق سے روزے کا اہتمام کرتے ہیں ادھر لوڈشیڈنگ نے ان کے ارمانوں پر پانی پھیرا ہوا ہے۔ رمضان کا مہینہ شروع ہونے سے پہلے حکومت پاکستان اور سپریم کورٹ نے حکم صادر فرمایا تھا کہ رمضان المبارک میں لوڈشیڈنگ کم سے کم کی جائے اور سحر و افطار کے وقت بلکل بھی نہ کی جائے مگر ہمارے ملک میں یہ بات شروع سے چلی آرہی ہے جس چیز سے منع کیا جائے وہ کام لازمی ہوتا ہے۔ اگر کوئی حکومتی نمائندہ میڈیا پر آکر یہ بول دے کہ فلاں کام نہیں ہوگا تو عوام کو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ کام ہرصورت ہونے والا ہے یا ہوگا۔ جس وقت یہ اعلان ہوا تو ہم سمجھ گئے کہ اب کے رمضان میں سحر و افطار اندھیرے میں ہی کرنا پڑے گا۔
لوڈشیڈ نگ والوں نے بھی قسم کھائی ہوئی کہ کسی نماز میں بجلی فراہم نہیں کی جائے گی۔ لوڈشیڈنگ کا ٹائم ٹیبل دیکھیں تو ہمارے حکمرانوں کی آنکھ کھل جانی چاہئیں۔ صبح سات بجے سے نو بجے تک لوڈشیڈنگ ہوتی ہے ایک گھنٹہ بجلی رہنے کے بعد دس بجے جو گئی تو پھر بارہ بجے واپسی ہوگی۔ اس کے بعدپھر حکومت کی جانب سے عوام کو ایک گھنٹے کا ریلیف دیا جاتا ہے پھر ایک بجے جو گئی تو پھر تین بجے آئے گی اور اب اس دوران ظہر کی نماز تپتی دوھوپ میں ادا کرنی ہے اور بعض مساجد میں تو پانی بھی نہیں ہوتاکہ وضوبھی کرلیا جائے اور نہ ہی اعلان کرنے کے لیے کوئی دوسرا بندوبست ہوتا ہے۔
Load Shedding
جس سے نمازی کو معلوم ہو سکے کہ مسجدمیں پانی نہیں ہے۔ نمازی کو مسجد میں جاکر معلوم ہوتا ہے کہ پانی نہیں ہے جب تک وہ کہیں وضو کر کے آتا ہے تب تک جماعت نکل چکی ہوتی ہے۔ اس کا گناہ کس کو ملے گا ہمیں یا حکمران کو ذرا سوچیں؟ ابھی یہی نہیں چاربجے جو لائٹ جائے گی تو چھ بجے آئے گی اس لوڈشیڈنگ کے دوران عصر کی نماز بھی اسی طرح ادا کی جائے گی جیسے ظہر کی نماز ادا کی گئی تھی۔ پھر سات بجے کی گئی تو کبھی آٹھ تو کبھی نو بجے آتی ہے۔
ان سب کے ساتھ ساتھ نماز تروایح میں تو سوا نوبجے جماعت شروع ہوگی اور ساڑھے نوبجے لائٹ چلی جائے گی اب حکمران اندازہ کریں کہ صرف ایک نماز ہے جو لائٹ کی روشنی اور پنکھے کی ہوا میں ادا کی جاتی اور وہ ہے فجر کی۔ اس وقت تو عموماً موسم سارے دن کی نسبت ٹھنڈا بھی ہوتا ہے۔ کیا اس طرح سے روزدار کوسکون کا سانس ملتا ہے؟
مجھے جس چیز نے یہ کالم لکھنے پر مجبور کیا وہ ہے کہ میں پہلے میاں صاحب کی حمایت میں تین، چار کالم لکھ چکا ہوں اور اب میرے حلقہ احباب مجھے ہر وقت ذلیل کرتا ہے کہ اب بھی لکھو میاں نواز شریف کے حق میں کالم۔ اب لکھو کہ کہ لوڈشیڈنگ کا دورنیہ اور بڑھائیں تاکہ روزدار اگر ان کے لیے دعا نہ کر سکے تو کم از کم بددعا تو ضرور کریں گے۔
رات اتنی مختصر ہے کہ نماز تراویح پڑھتے ہوئے ساڑھے گیا رہ بج جاتے ہیں اور پھر سحری کے لیے دو بجے اٹھنا پڑتا ہے۔اس طرح روزدار کی نیند پوری نہیں ہوتی اور اگر اب روز دار دن میں آرام کرنا چاہیے تویہ لائٹ کم بخت نہیں کرنے دیتی۔ میں نے خود بہت سے لوگوں کو لائٹ کا بہانہ بنا کر نماز پڑھنے اور روزہ نہ رکھنے کا سنا ہے۔ وہ تو گناہ گار ہوں گے مگر اس میں کچھ حصہ حکمرانوں کا بھی ضروری ہوگا۔ الیکشن کے دنوں میں ایک ہفتہ پورے ملک میں لائٹ فراہم کی جاسکتی ہے مگر اس بابرکت ماہ میںاور اتنی شدید گرمی کو دیکھتے ہوئے کیا روزداروں کے لیے حکومت احساس نہیں کرسکتی۔
میاں صاحب آپ کے چاہنے والوں کی آپ سے درخواست ہے کہ لوڈشیڈنگ پر جتنی جلد ہوسکے قابو پالیں اور رمضان میں رمضان بازار کی طرح رمضان لوڈشیڈنگ پیکج بھی دیں تاکہ عوام کو زیادہ سے زیادہ بجلی فراہم ہوسکے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ روزے میں لوڈشیڈنگ کی ستائی ہوئی عوان آپ کے خلاف اٹھ کھڑی ہوں۔
بہتر ہوگا آپ چند شکایت سیل بنائیں اورعوام کی سہولت کے لیے موبائل نمبرز دیں تاکہ جن علاقوں میں نماز، سحر اور افطار کے وقت لوڈشیڈنگ ہو وہاں کی عوام فوراًان نمبرز پر اپنی شکایت در ج کرائیں اور حکومت فوراً اس کا ازالہ کریں۔اس طرح آپ کی مقبولیت میں اور آپ کے چاہنے والوں کے وقار میں اضافہ ہوگا۔
Aqeel Khan
تحریر: عقیل خان آف جمبر aqeelkhancolumnist@gmail.com