تحریر: حافظ شاہد پرویز سماہ اپریل کے آغاز کے ساتھ ہی بجلی کی آنکھ مچولی نے جہاں حکومتی دعوؤں پر ضرب لگا دی ہے وہیں عوام کیلئے شدید بے چینی اور اضطراب کا سبب بھی بن گئے ہیں۔ گرمی کے آغاز کے ایام میں ہی جہاں 16 گھنٹے تک کی لوڈ شیڈنگ کا آغاز ہو چکاہے تو یہ سلسلہ عوام کے لئے لمحہ فکریہ اور اس سوچ کو جنم دے رہاہے کہ شاید ماہ جون اور جولائی میں لوڈ شیڈنگ کایہ دورانیہ مزید طول پکڑ جائے گا۔ حالانکہ وفاقی حکومت کی جانب سے صرف 3 گھنٹے لوڈ شیڈنگ کاواضح اعلان کیا گیا تھا۔بجلی کی پیداوار میں اضافے اور موسم سرما کے دنوں میں مناسب لوڈ شیڈنگ سے عوام کو ریلیف ملا جس سے کاروباری صنعتوں نے بھی اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت پر بھی خاطر خواہ بہتر اثرات پڑے۔ موسم کی بڑھتی ہوئی شدت اور جغرافیائی تبدیلیو ں کے ساتھ ساتھ ہی مستقبل میں الیکٹرونکس اشیاء کی ضرورت میں اضافہ ہوتا جا رہاہے ۔جس کی شرح 2017ء میں تقریباً 5سے 10فیصد تک ہو سکتی ہے۔محکمہ واپڈا کی جانب سے عوام کے اندر لوڈ شیڈنگ کے علاوہ بجلی کے بلوں کی ماہانہ وصولی اور فوری وصولی کے احکامات کی وجہ سے بھی شہری حلقوں میں تشویش پائی جا رہی ہے۔
حکومتی اقدامات پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ کیونکہ چھوٹے پیمانے پر بجلی کے صارفین میں سے گزشتہ ایک دھائی سے بلوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے دس فیصد افراد نے بھی اپنے کنکشن منقطع نہیں ہونے دیئے بے شک ان کو بجلی کابل تین ماہ کے بعد بمعہ جرمانہ ادا کرنا پڑا۔تو ایسے حالات میں حکومت کی جانب سے چھوٹے پیمانے پر بجلی کے صارفین کو ماہانہ بنیادوں پر بلوں کی ادائیگی کے لئے فورس کرنے اور کنکشن منقطع کرنے کے واقعات سے عوام کے اندر بے چینی کی فضا پائی گئی ۔جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کم تنخواہیں حاصل کرنے والے افراد شادی بیاہ اور دیگر ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے بعض دفعہ اپنا بجٹ کم ہونے کی وجہ سے بل جمع کروانے سے قاصر رہتے ہیں اور ایک ماہ اضافی اخراجات ہونے کے باعث اگلے ماہ بل جمع کروا دیئے جاتے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ حالیہ لوڈ شیڈنگ کے اضافے سے ایک منفرد بے چینی کی وجہ سے قوم کو جنریٹرز ‘ یو پی ایس ‘ اور دیگر ایسے آلات کی خریداری کے لئے غیر یقینی صورتحال کے باعث اخراجات برداشت کرنا پڑیں گے۔
حالانکہ ان اسیسریز کی خرید ‘ دیکھ بھال میں ماہانہ بنیادوں پر بڑے اخراجات اٹھانا پڑتے ہیں لوڈ شیڈنگ کاموجودہ تسلسل اگر بحال رہاتو اسے حکومت کی ناکامی کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جا سکتاہے۔بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایسے آلات قوم کے اندر نواز شریف کے وعدوں کو عملی شکل نہ پہنچنے کی وجہ سے مخالفت کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔حکومت کی جانب سے روزانہ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے اعلانات اور میڈیا پر اشتہارات کے شائع ہونے سے عملی اقدامات کا نہ ہونا قابل مذمت عمل ہے ۔جبکہ اس کے ساتھ ساتھ محکمہ واپڈا کے اندر میٹردرست کرانے ‘لائن ٹھیک کرانے اور دیگر معاملات کے حوالے سے کرپشن کا عروج بھی لمحہ فکریہ ہے۔
بجلی کے ایسے پول کہ جورہائشی علاقوں کے اوپر لگا دیئے گئے ہیں اور ان کوختم کرنے کے لئے کوئی خاص اقدامات نہیں کئے گئے ۔اگر کوئی صارف اپنے جانی نقصان کو بچانے کیلئے واپڈا سے رجوع کرتا ہے تو وہاں موجودہ افسران ان سے بھاری رقوم رشوت کی صورت میں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بغیر رشوت کے معاملات کو سنبھالنے کی بجائے مزید خراب کیا جا رہا ہے۔واپڈاکے محکمہ کی جانب سے صارفین کو صرف لائن چینج کرنے اور دیگر معاملات کیلئے ہزاروں روپے رشوت دینا پڑتی ہے جوکہ بھی موجودہ حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔
میاں نواز شریف اور شہباز شریف کی جانب سے کرپشن کے خاتمے کے اعلانات اور دعوؤں کو عملی شکل دینے کے لئے ان اداروں کے اندر بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف کرپشن سے پاک معاشرے کی تشکیل دی جاسکے بلکہ واپڈا کا قبلہ درست کرنے کے لئے بلیک میلنگ کرنے والی لیبر تنظیموں اور یونینز کو ختم کرکے ملازمین سے ان کے اوقات میں بغیر لالچ کے ڈیوٹیز کا فراہم ہوناانتہائی ہونا ضرورت ہے ‘تاکہ وقت پر شکایات کے ازالے کو یقینی بنایا جائے۔