تحریر : ڈاکٹر محمد عدنان گرمی کی شدت بڑھتے ہی پورے ملک میں لوڈشیڈنگ کا جن بوتل سے باہر آ گیا اور 12 سے 18 گھنٹے کی علانیہ غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا روز روز لوگوں کے واپڈا کے خلاف تپتی سرکوں پر ہونے والے مظاہروں سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ لوگوں کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے واپدا کے اعدادو شمار کے مطابق وطن عزیز میں بجلی کی رسد 16500 میگا واٹس جبکہ بجلی کی طلب 20 ہزار میگا واٹس ہے اور 3500 میگا واٹ کا شاڑٹ فال ہے اور اس کمی کو پورا کرنے کے لیے شہری علاقوں میں 6 جبکہ دیہی علاقوں میں 8 گھنٹے لوڈشیڈنگ کر رہا ہے مگر اس کے باوجود بھی ملک کا شاید ہی کوئی ایسا حصہ ہو گا جہاں12 سے18 گھنٹے لوڈشیڈنگ نہ ہو عام طور پر محاورہ بولا جاتا ہے کے موت اور گاہک کا کوئی پتہ نہیں کسی وقت بھی آ سکتی ہے لیکن آج کل واپڈا نے اس میں اذافہ کر دیا ہے کے موت اور گاہک کسی وقت بھی آ سکتے ہیں اور بجلی کسی وقت بھی جا سکتی ہے اس لیے ذہنی طور پر ہر وقت تیار رہے۔
ملک میں بڑھتی ہوئی لوڈشیڈنگ کی لہر سے کاروبار اور نظام زندگی مفلوج ہو نے لگی پاکستان ایک ترقی پزیر ملک ہے اور پاکستانی معشیت کا دارومدار ٹیکسٹائل اور شعبہ زراعت پر ہے یہ شعبے لوڈشیڈنگ کی وجہ سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں لوڈشیڈنگ کا سلسہ سابقہ صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں شروع ہو گیا تھا جو بڑھتے بڑھتے خطرناک صورت حال اختیار کر گیا۔
ہماری موجودہ حکومت بھی سابقہ حکومتوں کی طرح بجلی اور گیس کے بحران پر قابو پانے میں تا حال ناکام نظر آتی ہے جس کا واضح نقصان موجودہ حکومت کو آنے والے الیکشن میں ہو سکتا ہے صنعتی تنظیموں اور تجارتی حلقوں کی طرف سے بجلی کی لوڈشیڈنگ کو حکومت کی نا قص منصوبہ بندی اور توانائی اور عملی پیش رفت میں ناکامی سے تعبیر کیا جا رہا ہے اگر ہمارے ملک میں بجلی دستیاب نہیں ہو گی تو صنعتیں صحیح طریقے سے نہیں چل سکے گی اور توانائی کا متبادل استعمال کرنے سے پیداواری اخراجات بڑھیں گے اس صورت حال میں مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا اور پیداواری شعبہ کی لاگت بڑھ جائے گی جس سے حکومت برآمدات اور درآمدات میں توازن برقرار نہیں رکھ پائے گی موجودہ حکومت کو اپنی ساکھ بچانے کے لیے بجلی بحران پر قابو پانا بہت ضروری ہے۔
اس کے لیے حکومت کو اس مسلئے کو سریس لے کر2 ٹوک فیصلے کرنے ہو گے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے بجلی چوری پر دیانت داری سے آپریشن کرنا ہو گا مئی2013ء کے عام انتخابات میں پنجاب کے جن شہروں اور چینوٹ میں دریائے چناب کے مقام پر جہاں جہاں نہروں اور دیگر مقامات پر پن بجلی اور چھوٹے ڈیم بنا کر عوام سے کیے گے وعدے وفا کرے چین کی مدد سے توانائی بحران کے جتنے بھی منصوبوں کی تشہر کی گئی ہے اس کو جلد سے جلد مکمل کیا جائے کالا باغ ڈیم کے منصوبے کو ختم کرنے والی پیپلزپاڑئی کے اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیانی اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ اگر کالا باغ ڈیم تعمیر ہو چکا ہوتا تو نوشہرہ اور دیگر مقامات پر اس قدر سیلاب کی تباہ کاریاں نہ ہو تیں ایک ترقی پزیر ملک ہونے کے ناطے عوام پر ترس کھاتے ہوئے توانائی بحران پر قابو پایا جائے اگر حکومت نے ٹھا ن لی تو اگلے سال تک ٩٠ فیصد بجلی بحران پر قابو پا لے گی۔