تحریر : شیخ خالد زاہد پاکستان کی عوام جتنی پاکستانی ہے شائد ہی دنیا کی کوئی اور قوم اپنے ملک سے اتنی مخلص ہو ، اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ ہم اس وطنِ عزیز کی خاطر ہر دکھ سہتے ہیں مگر اپنے حکمران نہیں بدلتے جو ان دکھوں کا جواز ہیں۔ دنیا کہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں کسی بھی منصوبے کو شروع کرنے سے پہلے باقاعدہ اسکے تمام امور پر بھرپور غور کیا جاتا ہے اور پھر تمام اداروں سے سبز اشارہ ملنے پر منصوبے کا آغاز کیا جاتا ہے ۔ ایسے ممالک میں منصوبے سیاسی نہیں ہوتے بلکہ منصوبے ملکی اور قومی مفادات کو مدِنظر رکھ کربنائے جاتے ہیں۔ کسی بھی منصوبے کی کامیابی، منصوبہ شروع کرنے سے پہلے کی گئی حکمتِ عملی پر منحصرہوتی ہے۔ گلاس آدھا خالی ہے کہنے والے کو منفی سوچ کا حامل کہتے ہیں اور مثبت سوچ رکھنے والے کیلئے یہ کہنا ضرور ی ہے کہ گلاس آدھا بھرا ہے اب ایک ایسی صورت حال بھی ہوسکتی ہے جہاں کہنے والا یہ کہتا ہے کہ گلاس آدھا ہے ، اب اسے کونسی سوچ کے ذمرے میں رکھینگے گے۔ ہم پاکستانی اس گلاس میں الجھے ہوئے ہیں یعنی کون مثبت سوچتا ہے اور کسی کی سوچ منفی ہے اور کتنے فیصد ان دونوں کے بیچ میں رہتے ہیں۔
پاکستان میں سب سے تیزی سے بڑھنے والی چیز آبادی ہے ۔جس تیزی سے آبادی بڑھ رہی ہے اس حساب سے زندگی گزارنے کی سہولیات کی فراہمی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ نا پانی کے ذرائع بڑھائے گئے اور نا ہی نکاسی آب کے مسائل پر دھیان دیا جا رہا ہے اور سب سے بڑا مسلۂ یہ ہے کہ ادارے ان سب چیزوں کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہروں اور دیہاتوں کا بنیادی ڈھانچہ بڑھتی آبادی کو سنبھالنے کیلئے مرتب دیں۔ صرف خوراک کی ترسیل سے ہی ہم بڑھتی آبادی کا مسلۂ حل نہیں کرسکتے ۔ اب کراچی شہر کو لے لیجئے ایک اندازے کہ مطابق کراچی کی آبادی ڈھائی کڑوڑ کے آگے پیچھے ہونی چاہئے۔ جس میں نا صرف کراچی کے مقامی شامل ہیں بلکہ ایک کثیر تعداد پاکستان کے دیگر شہروں اور دیہاتوں سے آئے ہوئے لوگوں کی ہے اور یہ لوگ بمع اہل و عیال کراچی میں روزگار کے حصول کیلئے براجمان ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی کو سمونے کیلئے رہائش کا تو بندوبست ہوگیا ہے مگر کیا صرف رہائش کا بندوبست ایک پہلے سے آباد علاقے میں کافی ہے۔اس بندوبست کی صورتحال یہ ہے کہ ہے کہ ایک گھر کو تین اور چار حصوں یا گھروں میں تقسیم کیا جاچکا ہے یعنی جس گھر میں ایک خاندان مقیم تھاآج وہاں چار سے چھ خاندان رہ رہے ہیں۔
دیگر مسائل تو جیسے تیسے چل ہی رہے ہیں مگر آج بجلی کی لوڈ شیڈنگ انتہائی گھمبیر صورتحال کی ہوئی ہے اور یہ ایک اہم ترین ملکی مسلۂ بنتی جارہی ہے۔ ملک میں بجلی کی ترسیل ہر شہر میں وہاں کی مقامی بجلی کی فراہمی کی کمپنی کے ذمے دیا ہوا ہے اور اکثر شہروں کی یہ کمپنیاں نجی شعبے میں کام کر رہی ہیں اور کسی سرکار کو جوابدہ بھی نہیں ہیں۔ جوکہ ایک تشویشناک بات ہے ۔ کسی بھی قسم کی توانائی ، مواصلات اور ذرائع امد و رفت کے ادارے سرکاری تحویل میں ہی ہونے چاہییں تاکہ ان پر دشمن کی کسی قسم کی سازش کا اثر اس طرح نا ہو جسطرح ایک غیرسرکاری ادارے میں ہوسکتا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے بندوبست میں بجلی کی کھپت بھی بڑھ گئی یعنی جہاں ایک گھر استعمال کرتا تھا اب وہاں لگ بھگ وہی چار سے چھ خاندان مستفید ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اگر ہم عوام جو پاکستان سے سچی محبت میں گرفتا ہوں تو ہمارے سامنے چند ایسے حل موجود ہیں جن پر عمل کر کے کسی حدتک لوڈ شیڈنگ کے اس بڑھتے ہوئے بحران کو قابو کیا جاسکتا ہے۔ ایک تو یہ کہ ہم عوام اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ بجلی کا کثرتِ استعمال بجلی کی کمی کا باعث بنتا ہے تو ہم صرف ضرورت کہ تحت اور ناگزیر صورتحال کے حساب سے اپنے گھر کا لوڈ مینجمنٹ تشکیل دیں اور اس پر بھرپور طریقے سے عمل پیرا رہیں۔
دوسرا یہ کہ بلوں کی ادائیگی کو یقینی بنائیں اس بات سے قطعی نظر کہ بل کی لاگت کتنی ہے آپ اپنی حیثیت کے مطابق بل ادا کیجئے تاکہ ادارے کو اس بات احساس ہو کہ صارف کچھ نا کچھ تو میسر شدہ سھولت کی مد میں ادائیگی کر رہا ہے ۔ یہ دونوں صورتیں مثبت سوچ کی عکاسی کرتی ہیں جو ہمارے معاشرے میں ناپید نہیں ہے۔ تیسری اور انتہائی اہم ضرورت اس امر کی ہے کہ بجلی کی چوری نا جائے اور کرنے والوں کو قانون کے حوالے کریں درحقیقت انہی لوگوں کی وجہ سے یہ بجلی کا بحران روز بروز شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ آخیر میں یہ لکھنا اپنا قومی فریضہ سمجھتا ہوں کہ آئندہ جب کبھی بھی انتخابات ہوں تو یہ سوچ لینا کہ ووٹ کسی سفید من والے کو دینا نا کہ سفید تن کہ دھوکہ میں پھر مارے جاو۔ طاقت کا منباء ہم عوام ہی ہیں بس ضرورت ہمارے متحد ہونے کی ہے۔