تحریر: اقبال زرقاش اقتدار کا نشہ انسان کے ہوش و حواس کو مفلوج کر کے رکھ دیتا ہے۔ حکمرانوں کو اپنے علاوہ سب لوگ کیڑے مکوڑے دکھائی دیتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہی عقل کل ہیں جو فیصلے وہ کرتے ہیں وہی درست ہیں کسی کی مت سنو جو دل میں آئے کر گزرو۔ یہی خوش فہمی ہے جو حکمرانوں کو تخت سے فرش پر لے آئی ہے۔ کہتے ہیں جتنا بڑا انسان ہوتا ہے وہ اتنی ہی بڑی غلطیاں کرتا ہے آج کل ہمارے حکمران جس روش پر چل پڑے ہیں لگتا ہے کہ وہ جلد تخت سے فرش پر آنے والے ہیں۔
پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کو عوام نے اس لیے مسترد کر دیا کہ انہوں نے عوام سے جو جو وعدے کیے ان کو پورا نہ کر پائی۔کرپشن اور لوٹ مارسکینڈلز کے ساتھ ساتھ لوڈ شیڈنگ سب سے بڑا ایشو تھا جو پیپلز پارٹی کی حکومت کو لے ڈوبا اور وفاق کی علامت سمجھے جانے والی جماعت صرف ایک صوبے تک محدود ہو کر رہ گئی۔ ن لیگ کوعوام نے اس لیے ووٹ دیئے کہ انہوں نے عوام کو چھ ماہ میں لوڈ شیڈنگ کے خاتمے، مہنگائی، بے روز گاری سے نجات دلانے کی نوید سنائی لیکن بدقسمتی سے حکومت میں آتے ہی شریف برادران نے سابقہ حکمرانوں سے سبق حاصل کرنے کی بجائے ان کے نقش قدم پر چلنے کو ہی بہتر طرز حکمرانی قرار دیا۔
Loadshedding
لوڈ شیڈنگ کے عذاب میں مبتلا لوگ جن کو اپنا مسیحا سمجھتے تھے وہی ان کے لیے عذاب بن گئے۔ پاکستانی عوام ایک بار پھر شریف برادران کے دھوکے میں آ گئی یہ سمجھ کر کہ وہ سابقہ غلطیوں کا ازالہ کریں گے اور عوامی مسائل کو حل کرنے کے لیے شب وروز ایک کر دینگے مگر ایسا نہ ہوا۔ گرمی اور لوڈ شیڈنگ نے کراچی میں جو خون کی ہولی کھیلی اس کی مثال شاید تاریخ میں کبھی نہ ملے۔ اک طرف گھروں سے لاشے اٹھ رہے تھے تو دوسری طرف صوبائی حکومت وفاقی حکومت پر الزامات لگا رہی تھی اور وفاقی حکومت صوبائی حکومت پر اموات کی ذمہ داری ڈال کر بری الذمہ ہونے کا سرٹیفکیٹ لے رہی تھی۔ ظلم وبربریت کی انتہا ہوتی ہے۔
موجودہ حکمران جنگل کے درندوں سے بھی زیادہ وحشی ہو چکے ہیں۔ انہیں عوام کے دکھ درد کا احساس تک نہیں حکمرانوں کے گرد خوشامدیوں ،قصیدہ گو ا بن الوقت لوگوں کا ایک جم غفیر جمع ہے جو ان کو ایسے مشورے دے رہا ہے جو ان کو اٹک قلعے کی طرف لے کر جا رہے ہیں۔ ملک اس وقت انتہائی نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ لوڈشیڈنگ کے عذاب ،نے پوری قوم کو نفسیاتی مریض بنا کر رکھ دیا ہے۔ مگر ہمارے حکمران ہیں کہ عدالتوں میں زیر التواء مقدمات کی طرح عوام کو لوڈشیڈنگ سے نجات کیلئے ہر روز نئی تاریخ دے رہے ہیں۔ چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ تو نہ ہو سکا اب پانچ سال کی تاریخ عوام کو دے دی گئی ہے جبکہ عملی طور پربجلی کی پیداوار کیلیے کوئی پراجیکٹ ایسا نظر نہیں آرہا جو بجلی کی کمی کو جلد از جلد پورا کرنے کے قابل ہو سکے۔
عوام کے دلوں میں حکمرانوں کے خلاف جو لاوہ پک رہا ہے وہ کسی بھی وقت آتش فشاں بن کر پھٹ سکتا ہے۔حکمران یہ سمجھ رہے ہیں کہ پاکستانی عوام کا حافظہ بہت کمزور ہے وہ پرانی باتوں کو جلد بھول جاتے ہیں مگر اب ایسا نہیں رہا۔سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز نے عوام کی یاداشت کو اتنا طاقتور بنا دیا ہے کہ انہیں حکمرانوں کے الیکشن سے قبل کیے گئے وعدوں کے وہ تاریخی جملے بار بار دیکھنے کو مل رہے ہیں کہ اگر ہم نے چھ ماہ میں لوڈ شیڈنگ ختم نہ کی تو میرا نام شہباز شریف نہ ہو گا۔
Loadshedding Protest
عوام کو بیوقوف بنانے کی پرانی روش کا اب خاتمہ ہو چکا ہے۔آج حکمران جو بولتے ہیں وہی ریکارڈ کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ میاں برادران نے عوام سے جو وعدے کیے وہ ریکارڈ پر ہیں۔ جب وہ اقتدار میں آئے تو ان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا تھا جس میں وہ بری طرح ناکام ہو رہے ہیں۔ عوام کا ردعمل آئے روز سڑکوں پر احتجاج کی صورت میں سامنے آ رہا ہے اس کے باوجود حکمران طبقہ ملک میں مخصوص سڑکیں پل اور میڑو بس جیسے منصوبوں کو اولیت دے رہا ہے۔ اب ایک نئی خبر سامنے آئی ہے کہ زیرو پوائنٹ اسلام آباد سے روات تک سگنل فری روڈ بنوانے کا منصوبہ شروع کیا جا رہا ہے جس پر اربوں روپے لاگت آئے گی۔ جو لوگ مذکورہ روڈ پر سفر کرتے ہیںانکو معلوم ہو گا کہ موجودہ سٹرک پانچ سال تک عوام کیلیے کارآمد ثابت ہو سکتی تھی مگر حکمران ہیں کہ ملکی دولت کوایسے منصوبوں پر ضائع کرنے پر تلے ہوئے ہیںجن کی ابھی ضرورت نہ تھی؛مال مفت دل بے رحم:والی بات ہے۔
حکمرانوں کی عیاشیاں ہیں کہ رکنے کا نام نہیں لے رہیں۔ ملک کی پہلے ہی مالی حالت اس قدر خراب ہے کہ جون کے پہلے دو ہفتوں کے دوران ١٩٥ارب روپے سے زیادہ کے نئے نوٹ جاری کیے گئے ہیںجس کے باعث ملک میں زیر گردش نوٹوں کاحجم ملکی تاریخ میںپہلی مرتبہ ٢٧ کھرب روپے سے بھی تجاوز کر گیا ہے۔ گذشتہ پورے مالی سال کے دوران حکومت نے ٢٤٠ ارب روپے سے کم کے نوٹ جاری کیے تھے۔ رواں مالی سال کے دوران اب تک حکومت کمرشل بینکوں سے مجموعی طور پر ٩٤٤ ارب ٦٨ کروڑ روپے قرض لے چکی ہے۔
گذشتہ مالی سال کے عرصے میں حکومت نے کمرشل بینکوں سے صرف ١٨٤ ارب ١٥ کروڑ قرض لیے تھے۔ جب ملک کی مالی حالت اس قدر خراب ہو چکی ہو تو ایسے وقت میں ایسے منصوبے شروع کرنا عوام کی سمجھ سے بالا تر ہے۔ہم سڑکوں کی تعمیر کے خلاف نہیں لیکن ایسی سڑکیں جو فعال ہیں انکو دوبارہ اکھیڑنا کہاں کی عقلمندی ہے۔اگر شریف برادران کو سڑکوں اور پل بنانے کا اتنا ہی جنون ہے توآیئے بسم اللہ کیجیے۔ ملک ریاض کی طرح اپنے ذاتی سرمائے سے کوئی پل سڑک بنوا دیجیے کوئی آپ پر تنقید کرنے کی جرت نہ کرے گا۔ لیکن خدارا ملکی خزانے کو اس طرح کے منصوبوں کی نذر نہ کیجیے یہ آپ کے پاس قوم کی امانت ہے۔ ملک کو اتفاق فونڈری ہی سمجھ لیں تا کہ آپ کی فیکڑیوں کی طرح ملک بھی ترقی کرتا ہوا دیکھائی دے۔